"ول کی مایوس بیوی اسے بچانے کے لیے اس کے شعور کو کوانٹم کمپیوٹر میں اپ لوڈ کردیتی ہے۔ وہ جلد ہی اہم دریافتیں کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن ایک تاریک اور پوشیدہ مقصد کی نشانیاں بھی دکھاتا ہے۔"
(اوپر امیج پر کلک کرکے اس فلم کی explanation دیکھ سکتے ہیں۔ )
اپریل 2014 میں ریلیز ہونے والی سائی فائی ہالی وڈ فلم "Transcendence" جسکا اگر صحیح
معنیٰ میں اردو ترجمہ کیا جائے تو "ماورائی دنیا" نکلتا ہے نے باکس
آفس پر ایک سو تین ملین ڈالر کا ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ جس سے آپ انداذہ لگاسکتے ہیں کہ
عوام النّاس اس قسم کی سائینس فکشن فلمیں دیکھنے میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔لیکن
میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ عوام کی یہ
دلچسپی جب ہی قابلِ دید ہونا چاہئیے جب وہ اس طرح کی فلموں سے مستقبل میں ہونے
والے کسی بھی ممکنہ نقصانات کا نتیجہ اخذ کرسکیں وگرنہ فلم دیکھنے میں وقت اور
پیسہ دونوں برباد ہونگے۔
ہوتا کچھ اس طرح سے ہے کہ ہالی وڈ جب بھی اپنی
فلموں کے ذریعے نئے آئیڈیالیکر مارکیٹ میں اترتا ہےوہ آئیڈیا چند ہی عرصے میں حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے
سامنے آرہا ہوتا ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو سوچنا نہیں چاہئیے کہ ایسا
کیونکر ہوتا ہے؟
![]() |
Hollywood |
اگر میں اسی سوال کو Passive بنا دیتا ہوں
تو آپ کا کیا ردِّ عمل ہوگا کہ آئیڈیا اور اسکی تطبیق پہلے ہی مکمل ہوچکی
ہے اور یہ جو کچھ آپ کو حال میں فلم کے ذریعے دکھایا جارہا ہے اس سے صرف عوام میں
اس چیز کی intensity of acceptance or rejection کو چیک کیا
جارہا ہوتا ہے۔مطلب اس سے عوام کو صرف اس بات سے مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ ذہنی طور
پر تیار ہوجائیں کہ آنے والے دنوں میں
اپنے آپکو اس ٹیکنالوجی کا سامنا کرنا
پڑسکتا ہے۔
![]() |
Watch Urdu Documentary |
اوپر جس فلم کا حوالہ
دیا گیا ہے اس کا تعلق اس ذمانے کی نئی ایجاد "آرٹیفیشل انٹیلی جینس" سے
ہے۔تو مزید آگے بڑھنے سے پہلے ہم آرٹیفیشل
انٹیلی جینس کی تعریف کھوجنے کی کوشش کرتے
ہیں۔
آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور مشین لرننگ
سال 1955 میں سب سے
پہلے جان میکارتی نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا تصور دیا تھا۔جان میکارتی ایک امریکن کمپیوٹر
سائینسدان تھے اور 1956 میں ایک کانفرنس میں انھونے اس ٹرم کا استعمال کیا تھا کہ انسان
کو اپنے دشوار کاموں کیلئے مشین کا استعمال کرنا چاہئیے۔
![]() |
Prof. John McCarthy |
مصنوعی ذہانت وہ ذہانت
ہے جس کا مظاہرہ مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح کی ذہانت ہوتی ہے جیسے
جانوروں میں پیٹرن کے ساتھ اور اس سے آگے انسانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ موجود
ہوتی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا ایک حصہ
مشین لرننگ کہلاتا ہے، جس میں مشین کو خود کار بنانے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے اس
حصہ کے ذریعے مشین اپنے تئیں بہت کچھ سیکھتی اور کام کرتی ہے، جس طرح انسان بچپن
سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور بالآخر آگے چل کر وہ خود اپنے فیصلے لیتا ہے کہ کس وقت
کس طرح سے کام کرنا ہے، ااسی طرح مشین لرننگ میں انسان کے بناء ہی اپنے کاموں میں Accuracy لانے کی
کوشش کی جاتی ہے۔مشین لرننگ کمپیوٹر پروگرام کی ڈیویلپمنٹ پر کام کرتا ہے جو ڈیٹا
کو صحیح طور پر لیکر اپنے امور کو بہتر بنا تا ہے جس طرح انسان بہت سے معاملات میں
مشوروں پر عمل کرکے اپنے امور کو بہتر کرتے ہیں اسی طرح آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے
پروگرام کے ذریعے مشین بھی سیکھنے کا کام کرتی ہے۔
![]() |
A.I |
اس وقت آرٹیفیشل
انٹیلی جینس اور مشین لرننگ کیلئے پائیتھون پروگرامنگ لینگویج استعمال
کی جارہی ہے۔میٹرکس، روبوٹ اور ٹرمینیٹر جیسی
فلموں میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس
کاہی تصور دیا گیا ہے جس میں روبوٹ کو ایسا دکھا گیا ہے کہ یہ کیسے انسا ن کو طرح
سوچتا ہے اور کام کرتا ہے۔
فیس بک کا بھیانکر تجربہ
آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو اتنا سمجھنے کے بعد آئیے اب دوبارہ اپنے مضمون کی طرف آتے ہیں کہ کس طرح ہالی وڈ اپنے آئیڈیاز کو مارکیٹ میں متعارف کرتے ہیں یہ 2017 کا سال تھا یعنی Transcendenceفلم کے ٹھیک تین سال کے بعد ایک ڈراؤنا واقعہ پیش آتا ہے کیونکہ اس سال جولائی اگست کے مہینے میں فیس بک کے ایک تجربے نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا ، جی ہاں وہی فیس بک جس کا آپ لگ بھگ روزانہ ہی استعمال کرتے ہیں ، ہوا کچھ یوں تھا کہ فیس بک کے منجھے ہوئے انجینئیرز نت نئے chat box بنانے میں مصروف تھے ، چیٹ باکس دراصل مشین سے بات چیت کرنے کا ایک ایسا پورٹل ہوتا ہے جہاں آپ مشین سے اپنے فارغ لمحات میں بات چیت کرتے ہیں اور مشین آپ کو انسانوں کی طرح جواب دیکر آپ کو بہت سے مفید مشورے بھی فراہم کرتا ہے اور آپ کو احساسات میں ہنس کر، رو کر، محبت سے اور غصہ کر کے انسانی طرز پر انسانی آواز میں آپ سے بات کرتا ہے۔ اسی experiment کے دوران فیس بک کے ایک ڈیویلپر کے ذہن میں آئیڈیا آیاکے چلو دوبوٹس یعنی دو پروگراموں کو انسانوں سے نہیں بلکہ آپس میں بات کراتے ہیں۔اس طرح انھونے دونوں بوٹس کے نام رکھے، ایک کا نام بوب اور دوسرے کا نام ایلیس رکھا ، اسطرح دونوں کو آپس میں بات چیت کرنے کا موقع فراہم کیا گیا اور دونوں آپس میں بات کرنے لگے، انھونے آپس میں کیا بات کی اسکی کاپی ملاحظہ کیجئے;
![]() |
Robots Chats |
BOB: I can I I everything else
Alice: Balls have Zero to me to me to me to me to me to me to me to me to
BOB: You I everything else
Alice: Balls have a ball to me to me to me to me to me to me to me
Bob: I . . . . . . . . . . . . . . . . . . . [11]
فیس بک کے دگت اور منجھے ہوئے انجینئیرز کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ دونوں
کیا باتیں کررہے ہیں،بعد میں مزید کھوجنے کے بعد پتا چلا کہ یہ کوئی machine error نہیں بلکہ ان دو روبوٹس نے
ملکر اپنے آپ میں ہی ایک لیگویج کو ڈیویلپ کرلیا ہے جو انسانوں کے درمیان اپنے کوڈ
ورڈ میں ایک گفتگو تھی کہ انسان جیسی مخلوق کو اس کا ادراک نا ہوسکے کہ ان کے درمیان
کیا گفتگو ہوئی ہے اس طرح اس پروگرام میں ایک عجیب سی انٹیلی جینس آگئی تھی یعنی
ایک لینگویج کا بنانا جو درحقیقت کوئی عام ٹیلنٹ نہیں بلکہ سپر انٹیلی جینس کی ایک
جھلک ہے جو پروگرامنگ کی دنیا میں ناممکن ہے مگر یہ وقوع پذیر ہوا تھا۔اگر آپ کسی جانور کو کوئی
ذبان بنانے جیسے لرننگ دیں تو بڑے سے بڑا جانور بھی یہ کام کبھی نہیں کرپائیگا کیونکہ
یہ اس کے بس سے باہر ہے مگر ان دو روبوٹس نے جن کا مآخذ پروگرامنگ تھا ، کردکھایا
جس پر تمام ہی کمپیوٹر سائینسدان ششدر رہ گئے اور فوری طور پر اس پروگرامنگ کو ختم
کرنے کا عندیہ دے دیا گیا، کیونکہ جس تیزی سے یہ روبوٹس اپنے تئیں کام میں auto development کو پیدا کررہے تھے اس سے کچھ اور
ہی خطرات کی بو آنے شروع ہوگئی تھی۔فیس بک ڈیولیپرز کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کو
بند کرنا ہماری مجبوری تھی کیونکہ یہ بوٹس اپنے آپ میں ہی خفیہ طور پر لرننگ کرکے
انسانوں کے علم میں لائے بغیر Smart bots کی طرف قدم رکھ رہے تھے جو مستقبل میں انسانوں
کیلئے کسی بھی قسم کا خطرہ کھڑا کر سکتے
تھے۔
آئی –ٹی میں Singularity کا کیا تصور ہے؟
یہ بات بہت اچھے سے ذہن نشین ہونا چاہئیے کہ بوٹس میں روشنی کی رفتار سے یعنی تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ سے communication signals آپس میں شفٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی لرننگ پاور میں کمال کی تیزی اور پھرتی ہوتی ہے، اور وہی انسانی نیورون میں صرف چارسو کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سگنلز شفٹ ہوتے ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے مقابلے میں انتہائی طور پر کم ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی ذہانت انسانی ذہانت سے بڑھ گئی ہے،
![]() |
Robot |
کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اس Hypothesis کو لیکر کافی
بحث ہوئی ہے اور بالآخر Singularity کے تصور نے جنم
لیا کہ اگر آرٹیفیشل انٹیلی جینس نیچرل انٹیلی جینس سے ایک فیصد بھی بڑھ گئی تو دنیا
میں دو میں سے کوئی ایک واقعہ رونما ہوگا؛
1۔ یا تو انسان آرٹیفیشل
انٹیلی جینس کی من مانی اور اس کے قوائد و ضوابط سے عدم برداشت ہوکر اس دھرتی سے
ختم ہوجایئگا۔
2۔ یا پھر انسان
ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیگا اور یہ اسی وقت ہی ممکن ہوگا جب آرٹیفیشل انٹیلی جینس
میں انسانوں کی طرح جذباتی ہیجان ہیدا ہوجائے۔اس صورت میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس
نیچرل انٹیلی جینس کی مدد کریگا بالکل ایسا ہی جیسے انسان میں اچھے اور برے ہوتے
ہیں ان میں بھی خیر اور شرپیدا ہونا شروع ہوجائینگے۔
نظریاتی سائینسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے اس وقت اچھے بوٹس کی تعداد بدمعاش بوٹس سے بڑھ جائیں کیونکہ ذمین کا اسپیس میں ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی قائم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اچھے لوگوں کی تعداد برے لوگوں سے ذیادہ رہی ہے وگرنہ ذمین اس کی شر انگیزیوں سے کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔
![]() |
Download Urdu World Application for Updates |
نیچرل انٹیلی جینس کبھی بھی اپنی محدود عقل سے اپنی لامتناہی ذندگی کا آبِ حیات نہیں بنا سکتا مگر ہوسکتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس اس راہ پر چل کر نیچرل انٹیلی جینس کی مدد کریں اور نیچرل انٹیلی جینس کیلئے ایسا فارمولا مرتب کردیں جس کو اپنا کر انسان امر ہوجائے۔
![]() |
A.I with N.I |
آخری اور اہم بات
LaMDA (دی لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی
کیشنز )
اب ہم واپس اپنے مضمون کی طرف آتے ہیں یعنی
اپریل 2014 میں
ریلیز ہونے والی سائی فائی ہالی وڈ فلم
"Transcendence" پر تنقیدی جائزے کی جانب۔
جیسا کہ اوپر ذکر
کرچکے ہیں کہ اس فلم کے تین سال بعدہی فیس
بک انجینئیرز کے ساتھ تہلکہ خیز ریسرچ سامنے آئی جو کہ دو بوٹس کو لیکر کی گئی۔ اب ہم بات کرینگے
جون 2022 میں ایک ایسے شخص کی جو ایسی
کمپنی میں کام کرتا ہے جسے تمام آرٹیفیشل انٹیلی جینس پروگرامنگ کی ماں سمجھا جاتا ہے، جی ہاں ہم گوگل کی بات کر رہے ہیں ، اس کمپنی کا ایک سوفٹ وئیر
انجینئیر بلیک لیموئن نے دعویٰ کیا کہ کام کے
دوران اس کی بات چیت LaMDA (دی لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی
کیشنز )پروگرامنگ کے تحت چلنے والے چیٹ بوٹس سے ہوئی جس میں اس نے اس بوٹ کے اندر جذباتی
احساسات کا اندازہ لگایا تو اس نے اس بوٹس سے مختلف اوقات میں باقاعدہ اس چیز
کو چیک کرنے کیلئے کہ آیا واقعی مخلوق اپنے اندر احساسات رکھتی ہے، اس سے کچھ
سوالات کئیے، ملاحظہ کیجئیے؛ ان سوالوں میں بوٹس کے جذباتی احساسات جیسے غم
و غصہ، خوف و ڈر جیسی چیزوں سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ یہ ایک نئی
مخلوق تیار کی جارہی ہے جس کے بہت ہی بھیانکر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔جبکہ بی بی
سی سے بات کرتے ہوئے انھونے کیا انٹرویو دیا ، اس کی کاپی ملاحظہ کیجئے،
![]() |
Blake Lemoine claim A.I Bot became sentient |
یہاں حیران کردینے
والی بات یہ ہے کہ بلیک لیموئن کے لیمڈا کے ساتھ چیٹ باکس کا تجربہ Transcendence فلم سے قریب قریب ملتا جلتا ہے کیلن مسئلہ یہ ہے
کہ فلم میں ڈائریکٹر کی طرف سے Happy
ending اسکرپٹ میں لکھی طے تھی، مگر حقیقت میں کہانی اس
کے برعکس ہے ۔ آُ پ اس پر اپنے کیا تاثرات
دیتے ہیں ، کمنٹ کرکے ضرور بتائیگا۔ اور ایک اہم بات اور "بلیک لیموئن"
کی لیمڈا سے بات چیت کو الگ سے شائع کیا ہے آپ کلک کر کے جسارت کر سکتے ہیں۔
Natural language interface, A.I. N.I, LaMDA, linguistics, code, machine learning, computational creativity Transcendence
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments