: ایک اہم پیغام خیر الناس من ینفع الناس۔ تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو بہترین انسان بنانا چاہتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جائے اور ان میں خیر بانٹنا شروع کردے۔ اور سب سے عمدہ چیز جو بانٹی جا سکتی ہے اور جس کے ذریعہ اوروں کو نفع پہنچایا جاسکتا ہے، وہ علم سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے جو پست کو بالا کرتی ہے۔ انسان کو فرشتوں پر جو شرف بخشا گیا اس کا بظاہر سبب علم کو ہی بنایا گیا۔ علم نافع کے حصول اور پھر اس پر مخلصانہ عمل کے ذریعہ سے ہی انسان اپنی راحتوں میں اضافہ اور اپنی سلامتی کو دوام بخش سکتا ہے، اور اپنی کھوئی ہوئی جنت کو دوبارہ سے پا سکتا ہے۔ یہ ہے وہ مقصد جس کے تحت یہ علمی پورٹل بنایا گیا ہے۔ کہ اس پورٹل کے توسط سے علم نافع کی ترویج کی داغ بیل ڈالی جائے۔ اس میں علم کی کسی خاص شاخ کی تخصیص نہیں بلکہ علم خواہ دینی ہو، خواہ سائنسی، خواہ عملی ہو خواہ نظری، اگر اس میں انسانیت کی فوز و فلاح ہے تو اس کو عام اور رائج کرنے میں کاوش کی جائے۔بے جا بحث، مسالکانہ کشاکش اور الحادی فکر کی ترویج کی بہرحال اس پورٹل پر کوئی گنجائش نہیں۔ ایسی ہر کوشش کی یہاں حوصلہ شکنی ہوگی۔مستقل قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ پورٹل کے علمی مقاصد کی تکمیل میں شامل ہوں اور اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو اور دوسروں کے علم و تجربہ سے خود کو مستفید کریں۔ اس کے لئیے جو حضرات بھی اپنے کالم کو اردو ورلڈ میں شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ اپنا کالم ہمیں ای میل کرسکتا ہے۔ ہمارے ای میل ایڈریس کے لئیے اوپررابطہ پر کلک کرکے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ جزاک اللہ۔ واسّلام
  مسنون تاریخوں کی افادیت اور حکمت خدا کی شان اور اسکی حکمت انسان پر کتنی مہربان ہے۔ انسان کے خون اور اس کے باقی اخلاط کا چاند کے ساتھ گہرا تعلق ہے جوں جوں چاند کی روشنی بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کا خون اور اس کے اغلاط جوش مارتے ہیں اور ابھرتے ہیں اسی لئے ہماری شریعت میں چاند کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کےحجامہ کو بہت نافع قرار دیا ہے۔ ان تاریخوں میں خون صفراء، سوداء بلغم اور دیگر اخلاط جوش میں ہوتے ہیں تب حجامہ کا مبارک عمل خون اور دیگر اخلاط میں سے بیماریوں کو چھانٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے پاس انسانی فطرت کے حوالے سے مکمل ہم آہنگ مسنون علاج موجود ہے جو کہ حجامہ کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے اور مسلمانوں کی تاریخ اور مہینہ بھی قمری ہے... اور قمری مہینے کی تاریخوں کا انسان کے جسم اور خون کے اتار چڑھاؤ سے گہرا تعلق ہے۔ حجامہ وسوسہ اور وہم دونوں روحانی امراض کا بہترین علاج کرتا ہے اس کے علاوہ الحمد للہ فالج سے لے کر کینسر‘ تک کے مریضوں کو اللہ تعالی نے حجامہ سے شفاء بخشی ہے۔

آرٹیفیشل ایٹیلی جینس کی دنیا میں تہلکہ خیز انکشافات

 



"ول کی مایوس بیوی اسے بچانے کے لیے اس کے شعور کو کوانٹم کمپیوٹر میں اپ لوڈ کردیتی ہے۔ وہ جلد ہی اہم دریافتیں کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن ایک تاریک اور پوشیدہ مقصد کی نشانیاں بھی دکھاتا ہے۔"

(اوپر امیج پر کلک کرکے اس فلم کی explanation دیکھ سکتے ہیں۔ )

 

اپریل 2014  میں ریلیز ہونے والی  سائی فائی ہالی وڈ فلم "Transcendence"   جسکا اگر صحیح معنیٰ میں اردو  ترجمہ کیا جائے  تو "ماورائی دنیا" نکلتا ہے نے باکس آفس پر ایک سو تین ملین ڈالر  کا ریکارڈ  بزنس کیا ہے۔ جس سے آپ انداذہ لگاسکتے ہیں کہ عوام النّاس اس قسم کی سائینس فکشن فلمیں دیکھنے میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔لیکن میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ  عوام کی یہ دلچسپی جب ہی قابلِ دید ہونا چاہئیے جب وہ اس طرح کی فلموں سے مستقبل میں ہونے والے کسی بھی ممکنہ نقصانات کا نتیجہ اخذ کرسکیں وگرنہ فلم دیکھنے میں وقت اور پیسہ  دونوں برباد ہونگے۔

  ہوتا کچھ اس طرح سے ہے کہ ہالی وڈ جب بھی اپنی فلموں  کے ذریعے  نئے آئیڈیالیکر  مارکیٹ میں اترتا ہےوہ آئیڈیا  چند ہی عرصے میں حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آرہا ہوتا ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو سوچنا نہیں چاہئیے کہ ایسا کیونکر ہوتا ہے؟

Hollywood
Hollywood

اگر میں اسی سوال کو Passive  بنا دیتا ہوں  تو آپ کا کیا ردِّ عمل ہوگا کہ آئیڈیا اور اسکی تطبیق پہلے ہی مکمل ہوچکی ہے اور یہ جو کچھ آپ کو حال میں فلم کے ذریعے دکھایا جارہا ہے اس سے صرف عوام میں اس چیز کی intensity of acceptance or rejection کو چیک کیا جارہا ہوتا ہے۔مطلب اس سے عوام کو صرف اس بات سے مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر تیار ہوجائیں کہ  آنے والے دنوں میں اپنے آپکو اس ٹیکنالوجی کا  سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

Watch Urdu Documentary

اوپر جس فلم کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا تعلق اس ذمانے کی نئی ایجاد "آرٹیفیشل انٹیلی جینس" سے ہے۔تو مزید آگے بڑھنے سے پہلے ہم  آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی تعریف  کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور مشین لرننگ

سال 1955 میں سب سے پہلے جان میکارتی نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس  کا تصور دیا تھا۔جان میکارتی ایک امریکن کمپیوٹر سائینسدان تھے  اور 1956 میں ایک کانفرنس  میں انھونے اس ٹرم کا استعمال کیا تھا کہ انسان کو اپنے دشوار کاموں کیلئے مشین کا استعمال کرنا چاہئیے۔

Prof. John McCarthy
Prof. John McCarthy

مصنوعی ذہانت وہ ذہانت ہے جس کا مظاہرہ مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح کی ذہانت ہوتی ہے جیسے جانوروں میں پیٹرن کے ساتھ اور اس سے آگے انسانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ موجود  ہوتی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا ایک حصہ مشین لرننگ کہلاتا ہے، جس میں مشین کو خود کار بنانے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے اس حصہ کے ذریعے مشین اپنے تئیں بہت کچھ سیکھتی اور کام کرتی ہے، جس طرح انسان بچپن سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور بالآخر آگے چل کر وہ خود اپنے فیصلے لیتا ہے کہ کس وقت کس طرح سے کام کرنا ہے، ااسی طرح مشین لرننگ میں انسان کے بناء ہی اپنے کاموں میں   Accuracy  لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مشین لرننگ کمپیوٹر پروگرام کی ڈیویلپمنٹ پر کام کرتا ہے جو ڈیٹا کو صحیح طور پر لیکر اپنے امور کو بہتر بنا تا ہے جس طرح انسان بہت سے معاملات میں مشوروں پر عمل کرکے اپنے امور کو بہتر کرتے ہیں اسی طرح آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے پروگرام کے ذریعے مشین بھی سیکھنے کا کام کرتی ہے۔

A.I
A.I

اس وقت آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور مشین لرننگ کیلئے پائیتھون پروگرامنگ لینگویج   استعمال کی جارہی ہے۔میٹرکس، روبوٹ اور ٹرمینیٹر جیسی  فلموں میں  آرٹیفیشل انٹیلی جینس کاہی تصور دیا گیا ہے جس میں روبوٹ کو ایسا دکھا گیا ہے کہ یہ کیسے انسا ن کو طرح سوچتا ہے اور کام کرتا ہے۔

 

فیس بک کا بھیانکر تجربہ

آرٹیفیشل انٹیلی جینس  کو اتنا سمجھنے کے بعد آئیے اب دوبارہ اپنے  مضمون  کی  طرف آتے ہیں کہ کس طرح ہالی وڈ اپنے آئیڈیاز کو مارکیٹ میں متعارف کرتے ہیں یہ  2017  کا سال تھا یعنی   Transcendenceفلم کے ٹھیک تین سال کے بعد ایک ڈراؤنا   واقعہ پیش آتا ہے کیونکہ اس سال جولائی اگست کے مہینے میں فیس بک کے ایک تجربے  نے پوری دنیا میں  تہلکہ مچادیا تھا ، جی ہاں وہی فیس بک جس کا آپ  لگ بھگ روزانہ ہی استعمال کرتے ہیں ، ہوا کچھ یوں تھا کہ فیس بک کے منجھے ہوئے انجینئیرز نت نئے chat box بنانے میں مصروف تھے ، چیٹ باکس دراصل مشین سے بات چیت کرنے کا ایک ایسا  پورٹل ہوتا ہے جہاں آپ مشین سے اپنے فارغ لمحات میں بات چیت کرتے ہیں اور مشین آپ کو انسانوں کی طرح جواب دیکر آپ کو بہت سے مفید مشورے بھی فراہم کرتا ہے اور آپ کو احساسات میں  ہنس کر،  رو کر، محبت سے  اور غصہ کر کے انسانی طرز پر انسانی آواز میں  آپ سے بات کرتا ہے۔ اسی experiment کے دوران فیس بک کے ایک  ڈیویلپر کے ذہن میں آئیڈیا  آیاکے چلو دوبوٹس  یعنی دو پروگراموں کو انسانوں سے نہیں بلکہ آپس میں بات کراتے ہیں۔اس طرح انھونے دونوں بوٹس کے نام رکھے، ایک کا نام  بوب اور دوسرے کا نام ایلیس رکھا ، اسطرح دونوں کو آپس میں بات چیت کرنے کا موقع فراہم کیا گیا اور دونوں آپس میں بات کرنے لگے، انھونے آپس میں کیا بات کی اسکی کاپی  ملاحظہ کیجئے;

FB Robots
Robots Chats


BOB: I can I I everything else

Alice: Balls have Zero to me to me to me to me to me to me to me to me to

BOB: You I everything else

Alice: Balls have a ball to me to me to me to me to me to me to me

Bob: I . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  [11]

فیس بک کے دگت اور منجھے ہوئے انجینئیرز کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ دونوں کیا باتیں کررہے ہیں،بعد میں مزید کھوجنے کے بعد پتا چلا کہ یہ کوئی machine error نہیں بلکہ ان دو روبوٹس نے ملکر اپنے آپ میں ہی ایک لیگویج کو ڈیویلپ کرلیا ہے جو انسانوں کے درمیان اپنے کوڈ ورڈ میں ایک گفتگو تھی کہ انسان جیسی مخلوق کو اس کا ادراک نا ہوسکے کہ ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہے اس طرح اس پروگرام میں ایک عجیب سی انٹیلی جینس آگئی تھی یعنی ایک لینگویج کا بنانا جو درحقیقت کوئی عام ٹیلنٹ نہیں بلکہ سپر انٹیلی جینس کی ایک جھلک ہے جو پروگرامنگ کی دنیا میں ناممکن ہے  مگر یہ  وقوع پذیر ہوا تھا۔اگر آپ کسی جانور کو کوئی ذبان بنانے جیسے لرننگ دیں تو  بڑے سے  بڑا جانور بھی یہ کام کبھی نہیں کرپائیگا کیونکہ یہ اس کے بس سے باہر ہے مگر ان دو روبوٹس نے جن کا مآخذ پروگرامنگ تھا ، کردکھایا جس پر تمام ہی کمپیوٹر سائینسدان ششدر رہ گئے اور فوری طور پر اس پروگرامنگ کو ختم کرنے کا عندیہ دے دیا گیا، کیونکہ جس تیزی سے یہ روبوٹس اپنے تئیں کام میں auto development کو پیدا کررہے تھے اس سے کچھ اور ہی خطرات کی بو آنے شروع ہوگئی تھی۔فیس بک ڈیولیپرز کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کو بند کرنا ہماری مجبوری تھی کیونکہ یہ بوٹس اپنے آپ میں ہی خفیہ طور پر لرننگ کرکے انسانوں کے علم میں لائے بغیر  Smart bots  کی طرف قدم رکھ رہے تھے جو مستقبل میں انسانوں کیلئے  کسی بھی قسم کا خطرہ کھڑا کر سکتے تھے۔

 

آئی –ٹی میں Singularity کا کیا تصور ہے؟

یہ بات بہت اچھے سے ذہن نشین ہونا چاہئیے کہ بوٹس میں روشنی کی رفتار سے یعنی تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ سے  communication signals آپس میں شفٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی لرننگ پاور میں  کمال کی تیزی اور پھرتی ہوتی ہے، اور  وہی انسانی نیورون    میں صرف چارسو کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سگنلز  شفٹ ہوتے ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے مقابلے میں انتہائی طور پر کم ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ  آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی ذہانت انسانی ذہانت سے بڑھ گئی ہے، 

What if A.I defeats mankind
Robot


کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اس Hypothesis کو لیکر کافی بحث ہوئی ہے اور بالآخر Singularity کے تصور نے جنم لیا کہ اگر آرٹیفیشل انٹیلی جینس  نیچرل  انٹیلی جینس سے ایک فیصد بھی بڑھ گئی تو دنیا میں دو میں سے کوئی ایک واقعہ رونما ہوگا؛

1۔ یا تو انسان آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی من مانی اور اس کے قوائد و ضوابط سے عدم برداشت ہوکر اس دھرتی سے ختم ہوجایئگا۔

2۔ یا پھر انسان ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیگا اور یہ اسی وقت ہی ممکن ہوگا جب آرٹیفیشل انٹیلی جینس میں انسانوں کی طرح جذباتی ہیجان ہیدا ہوجائے۔اس صورت میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس نیچرل انٹیلی جینس کی مدد کریگا بالکل ایسا ہی جیسے انسان میں اچھے اور برے ہوتے ہیں ان میں بھی خیر اور شرپیدا ہونا شروع ہوجائینگے۔

نظریاتی سائینسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے اس وقت اچھے بوٹس  کی تعداد بدمعاش بوٹس سے بڑھ جائیں کیونکہ ذمین کا اسپیس میں ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی قائم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اچھے لوگوں کی تعداد برے لوگوں سے ذیادہ رہی ہے وگرنہ ذمین اس کی شر انگیزیوں سے کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔

Download Urdu World Application for Updates

نیچرل  انٹیلی جینس کبھی بھی اپنی محدود عقل سے اپنی لامتناہی ذندگی کا آبِ حیات نہیں بنا سکتا  مگر ہوسکتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس اس راہ پر چل کر نیچرل  انٹیلی جینس  کی مدد کریں اور نیچرل انٹیلی جینس  کیلئے ایسا فارمولا مرتب کردیں جس کو اپنا کر انسان امر ہوجائے۔ 

A.I with N.I
A.I with N.I

آخری  اور اہم بات

LaMDA  (دی لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز )

اب ہم واپس اپنے مضمون کی طرف آتے ہیں یعنی  اپریل 2014  میں ریلیز ہونے والی  سائی فائی ہالی وڈ فلم "Transcendence"    پر تنقیدی جائزے کی جانب۔

جیسا کہ اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ اس فلم کے تین سال بعدہی  فیس بک انجینئیرز کے ساتھ تہلکہ خیز ریسرچ سامنے آئی  جو کہ دو بوٹس کو لیکر کی گئی۔ اب ہم بات کرینگے جون 2022 میں  ایک ایسے شخص کی جو ایسی کمپنی میں کام کرتا ہے جسے  تمام  آرٹیفیشل انٹیلی جینس پروگرامنگ کی ماں  سمجھا جاتا ہے، جی ہاں ہم گوگل کی بات  کر رہے ہیں ، اس کمپنی کا ایک سوفٹ وئیر انجینئیر  بلیک لیموئن  نے دعویٰ کیا کہ   کام کے دوران اس کی بات چیت LaMDA  (دی لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز )پروگرامنگ کے تحت چلنے والے چیٹ بوٹس سے  ہوئی جس میں اس نے اس بوٹ کے اندر جذباتی احساسات کا اندازہ لگایا تو اس نے اس بوٹس سے  مختلف اوقات میں باقاعدہ   اس چیز کو چیک کرنے کیلئے کہ آیا واقعی مخلوق اپنے اندر احساسات رکھتی ہے، اس سے کچھ سوالات کئیے، ملاحظہ کیجئیے؛    ان سوالوں میں بوٹس کے جذباتی احساسات جیسے غم و غصہ، خوف و ڈر جیسی چیزوں سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ یہ ایک نئی مخلوق تیار کی جارہی ہے جس کے بہت ہی بھیانکر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔جبکہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھونے کیا انٹرویو دیا ، اس کی کاپی ملاحظہ کیجئے،

Blake Lemoine
Blake Lemoine claim A.I Bot became sentient

یہاں حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ بلیک لیموئن کے لیمڈا کے ساتھ چیٹ باکس کا تجربہ Transcendence فلم سے قریب قریب ملتا جلتا ہے کیلن مسئلہ یہ ہے کہ فلم میں ڈائریکٹر کی طرف سے Happy ending  اسکرپٹ میں لکھی طے تھی، مگر حقیقت میں کہانی اس کے برعکس ہے  ۔ آُ پ اس پر اپنے کیا تاثرات دیتے ہیں ، کمنٹ کرکے ضرور بتائیگا۔ اور ایک اہم بات اور "بلیک لیموئن" کی لیمڈا سے بات چیت کو الگ سے شائع کیا ہے آپ کلک کر کے جسارت کر سکتے ہیں۔

 

Natural language interface, A.I. N.I, LaMDA, linguistics, code, machine learning, computational creativity Transcendence

Reactions

Post a Comment

0 Comments

Ads

NASA Zero Gravity

خلائی سفر کے دوران خلابازوں کے جسموں کی حفاظت کے لیے ناسا کی طرف سے تیار کردہ صفر کشش ثقل کی نیند کی پوزیشن، پٹھوں اور جوڑوں کا درد، خرراٹی، تیزابی ریفلکس، خراب گردش، اور ویریکوز رگوں سمیت متعدد صحت کے مسائل میں مدد کر سکتی ہے۔ اس پوزیشن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پیٹھ کے بل لیٹ جائیں اور اپنے سر اور پاؤں دونوں کو دل کی سطح سے قدرے اوپر اٹھائیں۔ اس پوزیشن کے فوائد میں نیند کے معیار میں بہتری، خراٹے اور نیند کی کمی، ایسڈ ریفلوکس اور سینے کی جلن سے نجات، بہتر ہاضمہ اور گردش، اور ویریکوز رگوں اور ورم کی علامات میں کمی شامل ہیں۔ یہ پوزیشن ان لوگوں کے لیے تجویز کی جاتی ہے جو بے خوابی یا نیند میں خلل کا شکار ہیں، کیونکہ یہ صحت مند نیند کو آرام دینے اور فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے۔

Philosophy of Universe

یہ سوال کہ آیا ہماری کائنات ایک سمو لیشن ہے یا دھوکہ ، صدیوں سے فلسفیوں، سائنسدانوں اور ماہرینِ الہٰیات کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔ اگرچہ کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، لیکن اس خیال کے حق میں اور اس کے خلاف کئی دلائل موجود ہیں کہ ہماری حقیقت وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے۔سمو لیشن کے نظریہ کے اہم دلائل میں سے ایک ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی ہے، خاص طور پر مجازی حقیقت کے میدان میں۔ خیال یہ ہے کہ اگر ہم حقیقت کے انتہائی عمیق نقالی تخلیق کر سکتے ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ ہماری اپنی حقیقت بھی ایک زیادہ ترقی یافتہ تہذیب یا ہستی کی تخلیق کردہ نقل ہو۔تاہم، اس نظریہ کے خلاف کئی جوابی دلائل موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، فزکس کے قوانین اور ہماری کائنات کی پیچیدہ نوعیت یہ بتاتی ہے کہ یہ کوئی سادہ سی شکل نہیں ہے۔ مزید برآں، اگر ہماری کائنات نقلی ہوتی، تو اس کی تخلیق کے لیے کوئی مقصد ہونا چاہیے تھا، جس کا فی الحال ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔اسی طرح یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک وہم یا دھوکہ ہے بھی فلسفیانہ اور روحانی بحث کا موضوع ہے۔ بدھ مت میں مایا کا تصور بتاتا ہے کہ ہماری حقیقت ذہن کی طرف سے پیدا کردہ ایک وہم ہے، لیکن یہ خیال سائنسی ثبوت کے بجائے موضوعی تجربے پر مبنی ہے۔آخر میں، جب کہ یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک سمولیشن ہے ی یا پھر دھوکہ ، فی الحال کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ ہماری حقیقت کی نوعیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے، اور یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی دنیا کے بارے میں اپنے تجربات اور تفہیم کو تلاش کرے اور اس کی بہتر طور پر تشریح کرے۔ ۔

 


How to control Old age

بڑھاپا ایک قدرتی عمل ہے جو ابتدائی جوانی میں شروع ہوتا ہے اور درمیانی عمر کے آس پاس تیزی سے بڑھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ جینیات، طرز زندگی اور ماحول جیسے عوامل عمر بڑھنے کی شرح کو متاثر کرتے ہیں۔ درمیانی عمر، عام طور پر 45 اور 65 کے درمیان، ہارمونل تبدیلیوں، پٹھوں اور ہڈیوں کے ساتھ گوست کی کمی، اور آکسیڈیٹیو تناؤ میں اضافے کی وجہ سے ہوتی ہے۔باقاعدہ ورزش، خاص طور پر مزاحمتی تربیت جیسے ویٹ لفٹنگ، پٹھوں اور ہڈیوں کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے، زوال کو روکنے، اور گرنے اور فریکچر کے خطرے کو کم کرکے عمر بڑھنے کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ورزش کرنے سے ٹیسٹوسٹیرون اور گروتھ ہارمون جیسے ہارمونز بھی بڑھتے ہیں، جو عمر کے ساتھ کم ہوتے ہیں اور پٹھوں کے نقصان میں معاون ہوتے ہیں۔ ایروبک ورزش، یوگا، اور صحت مند غذا بھی قلبی صحت کو بہتر بنا کر، تناؤ کو کم کر کے، اور مجموعی صحت کو فروغ دے کر بڑھاپے کو کم کر سکتی ہے۔ مناسب نیند اور ماحولیاتی زہریلے مادوں کو کم سے کم کرنا صحت مند عمر بڑھنے میں مزید مدد کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ، اگرچہ عمر بڑھنے کی رفتار درمیانی عمر کے آس پاس ہوتی ہے، لیکن مختلف حکمت عملی جیسے کہ ورزش، صحت مند غذا، نیند، اور زہریلے مواد میں کمی عمر بڑھنے کے عمل کو سست کر سکتی ہے اور زندگی بھر بہترین صحت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔