![]() |
جب زندگی شروع ہوگی |
ناول: "جب زندگی شروع ہوگی" —
ایک مکمل خلاصہ
مصنف: ابو یحییٰ
صنف: اسلامی فکری ناول،
دینی اصلاحی ادب
موضوع: قیامت، آخرت، جزا
و سزا، جنت و دوزخ، ایمان، عمل اور ان کے نتائج
تعارف
"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ایسا فکری
اور روحانی ناول ہے جو قاری کو اس کی زندگی کے اصل مقصد سے روشناس کراتا ہے۔ یہ
ناول نہ صرف قرآن و سنت کے بنیادی پیغامات کو کہانی کے قالب میں ڈھال کر پیش کرتا
ہے بلکہ انسان کو آخرت کی حقیقت کا گہرا شعور بھی عطا کرتا ہے۔ ابو یحییٰ نے اس
کہانی کے ذریعے ایک عام انسان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے
تاکہ وہ دنیا کی عارضی زندگی کے دھوکے سے نکل کر ابدی زندگی کی تیاری کر سکے۔
کہانی
کا مرکزی خیال
ناول
کا مرکزی کردار صالح ہے، جو قیامت کے دن اپنی آنکھ کھولتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے
کہ دنیا کی زندگی ختم ہو چکی ہے، اور اب حقیقی زندگی شروع ہو رہی ہے—یعنی آخرت کی
زندگی، جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔ صالح، جو دنیا میں ایک باعمل، باشعور اور خدا
سے ڈرنے والا انسان تھا، اب قیامت کے مناظر، حساب کتاب، جزا و سزا اور جنت کے
مراحل سے گزرتا ہے۔ ناول کا بیشتر حصہ اسی سفر پر مشتمل ہے۔
ناول
کی فکری گہرائی
"جب زندگی شروع ہوگی" کا مرکزی پیغام
یہ ہے کہ دنیا ایک آزمائش گاہ ہے، جہاں انسان کو عقل، شعور، علم، آزادی اور اختیار
دے کر بھیجا گیا ہے تاکہ وہ اپنے اعمال سے جنت یا دوزخ کا مستحق بنے۔ انسان اکثر
دنیا کی چکاچوند میں گم ہو کر آخرت کو بھلا دیتا ہے۔ اس ناول کا مقصد اسی غفلت کو
ختم کرنا اور ایک ایسا منظرنامہ پیش کرنا ہے جو ہر انسان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ
دے۔
ناول
کے اہم کردار
1.
صالح: مرکزی کردار، ایک
مومن، باعمل اور خدا سے محبت رکھنے والا شخص، جو آخرت میں اپنے ایمان و عمل کی
بدولت جنت کا مستحق بنتا ہے۔
2.
جمشید: صالح کا دوست، جو
دنیا میں ایک غیر سنجیدہ انسان تھا۔ آخرت میں اس کی غفلت اسے تباہی سے دوچار کرتی
ہے۔
3.
سلمان، زید، اور
دیگر کردار: یہ کردار انسانی معاشرے کی مختلف اقسام کی
نمائندگی کرتے ہیں—ایماندار، منافق، غافل، ظالم، اور نیکوکار۔
قیامت
اور حشر کا منظر
ناول
میں قیامت کے دن کا نقشہ انتہائی تفصیل اور اثر انگیز انداز میں کھینچا گیا ہے۔
آسمان پھٹ چکے ہیں، زمین اپنے راز اگا رہی ہے، لوگ قبروں سے نکل کر میدانِ حشر کی
طرف دوڑ رہے ہیں۔ ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں
فرشتے گواہیاں دے رہے ہیں، نامہ اعمال پیش کیے جا رہے ہیں، اور اعمال کا وزن تولہ
جا رہا ہے۔
مومن
کی کامیابی اور فوزِ عظیم
صالح
کی پوری زندگی ایک صالح انسان کی زندگی رہی۔ وہ دنیا میں نماز، روزہ، صدقہ، حق
گوئی اور خدمتِ خلق کو اپناتا ہے۔ اس کے والدین، اس کے اہل و عیال اور دوست احباب
سب اسے ایک نیک انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس کے اعمال کا وزن بھاری ہوتا ہے،
اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اور بالآخر اسے جنت کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔
منافق
اور غافل انسان کا انجام
صالح
کے دوست جمشید، جو دنیا میں دین کو سنجیدہ نہیں لیتا تھا، جب قیامت کے دن اپنے
اعمال دیکھتا ہے تو نادم ہوتا ہے۔ لیکن اب توبہ کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ وہ حسرت
سے صالح کی طرف دیکھتا ہے لیکن اب کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ منظر اس قدر دردناک ہے
کہ قاری کا دل لرز اٹھتا ہے۔
جنت کی
جھلکیاں
ناول
کے اختتامی حصے میں جنت کا ذکر ہے، جہاں صالح کو داخل کیا جاتا ہے۔ وہاں کی
نعمتیں، خوبصورتی، امن، راحت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ
قاری کے دل کو خوشی اور امید سے بھر دیتا ہے۔ جنت کی نہریں، محل، لباس، خوراک، اور
سب سے بڑھ کر اللہ کا دیدار—یہ سب قاری کو اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اسلوبِ
تحریر
ابو
یحییٰ کا اسلوب نہایت سادہ، مگر مؤثر اور دلنشین ہے۔ وہ عام فہم زبان میں عمیق
اسلامی فلسفے اور عقائد کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری کو بات فوراً سمجھ
آ جاتی ہے۔ ان کی تحریر میں ادب، تحقیق، اور دعوت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ
مشکل نظریات کو بھی آسان پیرائے میں پیش کرنے کے ماہر ہیں۔
تبصرہ
اور تنقیدی جائزہ
"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ایسا ناول ہے
جو دینی کتابوں سے دور رہنے والے قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس میں
صرف مذہبی معلومات نہیں بلکہ ایک جذباتی، فکری اور عملی پیغام بھی ہے۔ یہ ناول
زندگی کے اصل مقصد کو واضح کرتا ہے اور قاری کے اندر ایک بےچینی پیدا کرتا ہے کہ
وہ اپنی موجودہ روش پر نظرثانی کرے۔
تاہم
بعض ناقدین کے مطابق ناول میں بعض مقامات پر خطیبانہ انداز غالب آ جاتا ہے، جو ادب
کے کچھ قارئین کو متاثر کر سکتا ہے۔ مگر اس کی دعوتی افادیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
"جب زندگی شروع ہوگی" صرف ایک ناول
نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہر انسان اپنی اصل حیثیت اور انجام کو دیکھ سکتا
ہے۔ یہ ناول قاری کو جھنجھوڑتا ہے، رلاتا ہے، شرمندہ کرتا ہے اور آخر میں ایک امید
بھی دیتا ہے کہ ابھی وقت ہے—زندگی شروع ہونے سے
پہلے، توبہ، رجوع، اور اصلاح کی۔
یہ ایک
ایسا پیغام ہے جسے ہر مسلمان کو نہ صرف خود سمجھنا چاہیے بلکہ دوسروں تک بھی
پہنچانا چاہیے۔ یہ ناول اس دور کی وہ فکری بیداری ہے جس کی آج کے نوجوان، دانشور
اور عام افراد کو اشد ضرورت ہے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments