ایک اہم پیغام   اس بدلتے اور بے ترتیب موسم میں اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں، خاص کر بچوں اور بزرگوں کا۔ نزلہ اور ذکام جیسی موسمی بیماریوں کا علاج پلوسہ یا بیری کے شہد سے کریں، شہد میں صرف دو لیموں کاعرق ملا کر ایک ایک چائے کا چمچہ صبح، دوپہر شام اور رات کو لیا جاسکتا ہے۔ یہ نا صرف قوتِ مدافعت میں اضافہ کرے گا بلکہ آپ کو دیگر امراض سے بھی بچاؤ میں مدد کرے گا۔ ہمارے پاس ہر قسم کے پلوسہ، بیری، جنگلات اور نیم کے شہد دستیاب ہیں، نیچے دئیے گئے (اشتہار پر) نمبرز پر کال کرکے آرڈر دیا جاسکتا ہے۔ شکریہ

 


  مسنون تاریخوں کی افادیت اور حکمت خدا کی شان اور اسکی حکمت انسان پر کتنی مہربان ہے۔ انسان کے خون اور اس کے باقی اخلاط کا چاند کے ساتھ گہرا تعلق ہے جوں جوں چاند کی روشنی بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کا خون اور اس کے اغلاط جوش مارتے ہیں اور ابھرتے ہیں اسی لئے ہماری شریعت میں چاند کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کےحجامہ کو بہت نافع قرار دیا ہے۔ ان تاریخوں میں خون صفراء، سوداء بلغم اور دیگر اخلاط جوش میں ہوتے ہیں تب حجامہ کا مبارک عمل خون اور دیگر اخلاط میں سے بیماریوں کو چھانٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے پاس انسانی فطرت کے حوالے سے مکمل ہم آہنگ مسنون علاج موجود ہے جو کہ حجامہ کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے اور مسلمانوں کی تاریخ اور مہینہ بھی قمری ہے... اور قمری مہینے کی تاریخوں کا انسان کے جسم اور خون کے اتار چڑھاؤ سے گہرا تعلق ہے۔ حجامہ وسوسہ اور وہم دونوں روحانی امراض کا بہترین علاج کرتا ہے اس کے علاوہ الحمد للہ فالج سے لے کر کینسر‘ تک کے مریضوں کو اللہ تعالی نے حجامہ سے شفاء بخشی ہے۔

آئن سٹائن تھوڑا غلط تھے

 

double-slit-experiment



آئن سٹائن تھوڑا غلط تھے؟ نئی سائنسی تحقیق نے روشنی کی فطرت پر نئی روشنی ڈال دی!

🧪 تجربہ جو صدیوں پرانی بحث کو انجام تک پہنچا

ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے سائنسدان اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے:
"
کیا روشنی ایک ذرہ ہے یا ایک لہر؟"
اور اب، امریکی ادارے ایم آئی ٹی (Massachusetts Institute of Technology) میں ہونے والا ایک جدید تجربہ اس راز سے پردہ اٹھا چکا ہے — اور حیرت انگیز طور پر، البرٹ آئن سٹائن بھی اس معاملے میں کچھ حد تک غلط ثابت ہو گئے۔

 

روشنی: موج یا ذرہ؟ – پس منظر

یہ سوال 1600ء کی دہائی سے اٹھایا جا رہا ہے جب آئزک نیوٹن نے کہا کہ روشنی ذرات پر مشتمل ہے، کیونکہ وہ سیدھی لکیر میں سفر کرتی ہے اور منعکس ہو کر صاف عکس بناتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف ہائگنز جیسے سائنسدانوں نے دلیل دی کہ روشنی میں "لہر" جیسی خصوصیات ہیں، جیسے خم، بکھراؤ، اور جھکاؤ۔

1801 میں تھامس ینگ نے ایک مشہور تجربہ (double-سلٹ experiment) کیا، جس میں روشنی کو دو باریک درزوں سے گزار کر دیوار پر ڈالا گیا۔ نتیجہ حیران کن تھا — روشنی نے لہر کی مانند interference پیٹرن بنایا، جو تب ہی ممکن ہے جب روشنی ایک موج ہو۔

 

کوانٹم فزکس کی مداخلت

1905 میں آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ روشنی کے ذرّات ہوتے ہیں، جنہیں فوٹون کہا جاتا ہے۔
اسی دوران میکس پلانک اور دیگر سائنسدانوں نے "quanta" کا تصور پیش کیا — یعنی توانائی اور روشنی چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں خارج ہوتی ہے۔یوں، روشنی کو لۃر-پارٹیکل duality یعنی لہر اور ذرہ دونوں خصوصیات رکھنے والی چیز مانا گیا۔

 

لیکن ایک وقت میں دونوں کیسے؟

یہیں سے نِیلز بوہر اور آئن سٹائن کا اختلاف شروع ہوا:

بوہر کا کہنا تھا کہ ہم روشنی کو ایک ہی وقت میں لہر اور ذرہ کے طور پر نہیں دیکھ سکتے — اس اصول کو "کامپلیمینٹری" کہا جاتا ہے۔آئن سٹائن نے کہا کہ اگر فوٹون ایک سلٹ سے گزرے اور دیوار کو تھوڑا سا "رَسلے"، تو ہم اسے ذرہ بھی مان سکتے ہیں اور اگر وہ interference پیٹرن بنائے تو وہ لہر بھی ہوگا۔ یعنی دونوں چیزیں ایک ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔

 

ایم آئی ٹی  کا انقلابی تجربہ

اب ایم آئی ٹی کے سائنسدان Wolfgang Ketterle اور Vitaly Fedoseev نے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ تجربہ دوبارہ کیا — لیکن اس بار scale بہت چھوٹا تھا۔

  • انہوں نے 10,000 ایٹمز کو لیزر کی مدد سے ایک قطار میں منجمد کیا، جنہیں absolute zero کے قریب ٹھنڈا کیا گیا۔
  • ہر ایٹم کو ایک "چھوٹا سلٹ" مانا گیا، اور روشنی کے ذرّات (فوٹونs) ان سے ٹکرا کر ایک خاص پیٹرن بناتے ہیں۔

نتائج بہت واضح تھے:

  • جتنی زیادہ "rattling" یعنی فوٹون کی حرکات ماپی گئیں، اتنا ہی لۃر-like interference پیٹرن ختم ہوتا گیا۔
  • مطلب: جب فوٹون کو ذرہ کی طرح measure کیا گیا، تو وہ لہر کی طرح behave کرنا بند کر گیا۔

 

نتیجہ: بوہر درست، آئن سٹائن نہیں

یہ تجربہ بوہر کے کامپلیمینٹری پرنسپل کو درست ثابت کرتا ہے۔
یعنی ہم کسی بھی فوٹون کو ایک ہی وقت میں "ویو" اور "پارٹیکل" نہیں دیکھ سکتے۔

یہ تجربہ اتنا حساس تھا کہ سائنسدانوں نے lasers کو بند کر کے ایک ملینویں سیکنڈ میں ناپ لیا — تاکہ کسی خارجی اثر کا امکان نہ رہے۔

 

کائنات کا اصل چہرہ: "بے یقینی" اور "امکانات"

یہ تجربہ صرف روشنی کے بارے میں نہیں، بلکہ پوری کائنات کی فطرت کے بارے میں ہے۔
کوانٹم فزکس ہمیں بتاتی ہے کہ:

  • کائنات ایک "یقینی مشین" نہیں بلکہ احتمالات کی دنیا ہے۔
  • ایٹمز، فوٹونز اور ذرات "فیصلہ" کرتے ہیں کہ وہ ذرہ ہوں یا لہر — اور ہم صرف نتیجہ دیکھ سکتے ہیں، وہ بھی جزوی طور پر۔


 

اختتامی کلمات

ایم آئی ٹی کا یہ تجربہ سائنس کے اس حصے کو مزید مستحکم کرتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ:

روشنی کی دوہری نیچر سچ ہے
 
مگر ہم دونوں پہلوؤں کو بیک وقت نہیں دیکھ سکتے
 
کائنات کی بنیادیں "یقین" پر نہیں بلکہ "غیر یقینی  پر استوار ہیں

 

حوالہ:

  • Keith Cooper, Space.com
  • ایم آئی ٹی Research Team (Wolfgang Ketterle & Vitaly Fedoseev)
  • Thomas Young’s Double-سلٹ Experiment (1801)
  • Niels Bohr vs. Einstein (Quantum کامپلیمینٹری Debate)

Reactions

Post a Comment

0 Comments

BMI Calculator

BMI Calculator