اس مضمون کو لکھنے کا
خیال مجھے کافی عرصے سے تنگ کر رہا تھا کہ میں اپنے دل میں چھپے خیالات کی ترجمانی
اس مضمون کے دریعے سے کروں۔اس کی ابتدا آج
سےٹھیک آٹھ سال پہلے ہوتی ہے جب میری عمر بتیس (32) سال تھی اور کئی حال چال
پوچھنے والے لوگ صحت کا اور چیزوں کا اور کاروبار کا پوچھتے تو میں ہمیشہ الحمدللہ
کہتا مگر دل میں اپنے آپ کو کہتا کہ چالیس کا ہندسہ قدرت کے ہاں ہمیشہ سے معتبر
رہا ہے۔چالیس سال کی عمر کے بعد میں الحمدللہ کیساتھ کیا کلمات لگاؤنگا یہ وقت
بتائیگا۔ مگر آج جب کہ میں الحمدللہ چالیس کے دہانے تک پہنچ چکاہوں۔تو ادراک کرتا
ہوں کہ ان آٹھ سالوں میں اپنے کتنے ہی
پیاروں کو لحد تک چھوڑ آیا ہوں ان میں
میرے والدین ، بھائی ، دوست احباب بھی تھے کچھ ایسے نوجوان بھی تھے جو اپنی تعلیم
کے سفر میں مشغول تھےاور بندہ ناچیز ان کی سفر کی راہ نمائی میں سر کرداں تھا۔
الغرض یہ سبھی لوگ تھے جنھونے قدرت کے ٹھوس ارادوں کے آگے سر تسلیم خم کیا اور
اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔اس میں پہل کیا ہوتا ہے بعد کیا ہوتا ہے نہیں پتا پر
قبرستان جاکر یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ذندگی ہمیں مزید ذندگی کی چاہت میں دھوکہ میں رکھتی ہے۔اور بہت
سے اچھے اعمال کے وقت آگے لمبی ذندگی کی امید دکھا کر وقتی مشقّت سے منہ موڑ تی
نطر آتی ہے۔ اور ترغیب دیتی ہے کہ دنیا کی رنگینیاں اور مستیاں تمہارے انھی وقتوں
کیلئے ہے۔مشقتوں کیلئے آگے ذندگی پڑی ہےجبکہ آگے پہنچ کر آپ کو یہ اندازہ ہوجاتا
ہے کہ وقت گزرنے کی ساتھ ساتھ آپ آرام طلب ہو گئے ہیں اور مشقتوں کا سوچتے کئی بارسوچتے
ہیں اور اسی آرام طلبی میں آپ اس دنیا میں اپنے وقت کو پورا کرلتے ہیں اور دنیائے
فانی سے بغیر قدرتی مشن کو پورا کئے چلے جاتے ہیں۔میں کبھی بھی شیطان کو اس کا دوش
نہیں ٹھراؤنگا کیونکہ شیطان صرف آپ کو ایک جہتی خیال دیتا ہے وہ بھی اس لئے کہ وہ
نار یعنی آگ کا بنا ہوا ہے۔ مگر انسان جو اپنے آپ کو ساری ہی مخلوقات میں اپنے کو
سب سے آگے سمجھتا ہے اس ایک جہتی خیال کو اپنا گردان کر قدرتی مشن سے
پیچھے ہٹ جاتا ہے۔قدرت نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ بغیر آپ کی مرضی سے کوئی بھی آپ کو
ہپناٹائز نہیں کرسکتا۔ا س سے پتا یہ چلتا ہے کہ جب شیطان انسان کو قدرت کے خلاف
کوئی خیال پیدا کرتا ہے تو انسان بالعموم اسے اپنا جان کر عمل کر بیٹھتا ہے اور اس
کے بار بار کے اعمال سے وہ خود بخود شیطان کا پیروکار بن جاتاہے۔اب اس میں آپ خود
سوچئئے انسان کا کتنا بڑا عمل دخل ہے۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ انسان اپنی ماورائے
حواس کو جو قدرت نے انسان میں محفوظ رکھی ہیں بروئے کار لا تےہوئے اس یک جہتی خیال کو اپنے چیکر سسٹم میں خیال کی
پڑتال کرتا اور فلٹر کر کے اس کی تہہ تک پہنچ کر کوئی عمل اپنے ذات سے سرزد کرتا۔
یاد رکھئے اور پھر یاد رکھئے کہ انسان کی
آرام طلبی اس کے مشقّت والے بہترین کاموں میں مانع ہے۔
چالیس کا ہندسہ
قدرت کا قانون ہے کہ
چالیس سال تک جو مسلسل عمل انسان کی زندگی
سے صادر ہوتے ہیںاور چالیس سال کا عرصہ
اس عمل میں گزرجاتا ہےتو چالیس سال بعد
والی ذندگی بھی اس طرز پر گزرنا شروع ہوجاتی ہے۔ قدرت چالیس کے ہندسے کو کیسے
دیکھتی ہے آئیں دیکھتے ہیں۔
1۔ چالیس دن میں بچے
کی کوئی شکل ماں کے پیٹ میں مرتّب ہوتی ہے۔
2۔ صاحب الحوت یعنی
حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن رہے۔
3۔ حضرت موسیٰ نے
کوہِ طور پر تیس سے بڑھا کر چالیس دن کردیا۔
4۔ ہمارے پیارے نبی حضرت
محمدﷺ کو چالیس سال کی پختہ عمر میں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔
چالیس سال میں قدرت
انسان کی بند آنکھوں کو کھولتی ہے اور اس میں شعور، استقلال، بردباری اور گہرائی سے
تدبر کرنے کی حسوں کو ایکٹیویٹ کرتی ہے۔اب یہ انسان کی صوابدید پر ہے کہ وہ قدرت
کے کتنے اشاروں کو کتنی حکمتوں پر پرکھتا اور کتنیفراست سے دیکھتا ہے۔موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔اگر چالیس سال
کی عمر میں بھی انسان ہوش کے ناخن نہیں لیتا تو آگے ہمیشہ آنے والی ذندگی میں
سوائے افسوس، ملامت اور ملال کے کچھ نہیں پائے گا۔میری ان تمام بہن بھائیوں، دوست،
اقارب سے درخواست ہے جو چالیس کے ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں کہ خدارا اپنےآنے کا مقصد تلاش کرواور خوب عبادت میں محنت
کرو اور جلد از جلد اپنے مقاصد کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی سعی کرو۔ مبادہ وہ
وقت آجائے کہ تم چل پھر نا سکو اور موت کا فرشتہ پس تمہیں لینے آجائے۔میں پھر کہتا
ہوں کہ موت کا فرشتہآجاتا ہے اس کیلئے
پہلے سے کوئی نوٹیفیکیشن نہیں آتی۔ آرام طلبی کو ختم کیجئے اور یکسو ہوکر قدرتی
اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔یاد رکھئے پچھلی جتنی قوموں پر قدرت کا قہر نازل
ہوا ہے وہ اس وقت ہوا ہے جب یا تو قوم والے دن میں آرام کررہے ہوتے تھے یا رات
میں۔ قہر کا وقت اصل میں ان کا آرام کا وقت ہوا کرتا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں
سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
0 Comments