![]() |
Source Code |
اپریل 2011 کو ریلیز ہونے والی
ہالی وڈ کی اس فلم کے بارے میں معلومات دینا
اسلئے ضروری سمجھتا ہوں کہ آج گیارہ سال
بعد نیورو سائنسدانوں نے ہالی وڈ کی اس ورچوئل رئیلیٹی پر مبنی فلم کے مطابق بہت کچھ پتا چلا لیا ہے کہ
ہم اپنے دماغ کی یادداشت کو کس طرح سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اور میرے خیال میں
"نیورو لنک" کا آئیڈیا بھی اسی فلم کے آئیڈیا سے ملتا جلتا نظر آتا ہے
کیونکہ نیورو لنک میں آپ اپنے تخیل کو چپِ کے ذریعے لنک کرواتے ہیں اور وہاں سے وائرلیس پروٹوکول کو
استعمال کرتے ہوئے اسکرین پر ڈسپلے کردیتے
ہیں۔ ذیل میں مختصرا" اس سائینسی فلم
پر اردو
ذبان میں تجزیہ کے ساتھ اس فلم کو
اردو ذبان میں ہی شئیر کرایا ہے۔ فلم اپنے
ابتداء ہی سے بہت شاندار پکچرائز کی ہےاور آخر تک انتہائی ذبردست طریقے سے اپنی
ریسرچ کو لیکر چلے ہیں۔
مارک جورڈن کی
اس فلم نے ایک اندازے کے مطابق 147.3 ملین ڈالر باکس آفس
میں کمائے ہیں۔ ایک فلم سے اتنے پیسے کمانے کا مطلب عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اس فلم کو دیکھا ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہونگے
جنھیں ایک بار دیکھنے سے سمجھ نا آئی ہو اسے دوبارہ
دیکھنے کا موقع ملا ہو۔
مگر میں وسوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سارے دیکھنے والوں میں سے چند ہی ایسے
ہونگے جنھونے بین رپلے جو کہ اس فلم کے رائیٹر ہیں کا پیغام
ٹھیک طرح سے لیا ہو۔جیسا کہ فلم کے نام سے ظاہر ہے۔ سورس کوڈ، یہ بنیادی طور پر
کمپیوٹر پروگرامنگ سے منسلک ایک ٹرم ہےجسے استعمال کیا جاتا ہے بہت سے
سافٹ ؤئیرز کیلئے یا ویب ذیزائیننگ کیلئے۔کسی بھی ویب سائٹ پر ہمیں جو کچھ بھی نظر
آتا ہے اس کے پسِ پردہ سورس کوڈز ہی کی مختلف ذبانیں ہوتین ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ اپنے فیس بک صفحے پر رائٹ کلک کرتے ہیں تو وہاں ایک آپشن آتا ہے "ویو پیج سورس " جب آپ اس پر کلک کرتے ہیں تو نیچے دی گئ تصویر کی طرح آپ کو عجیب وغریب نمبرز اور الفاظ مختلف طریقوں سے لکھے نظر آئینگے۔جو حضرات کمپیوٹر کی "سی " اور جاوا" لینگوجزسے آگاہ ہیں وہ جان سمجھ سکتے ہیں میں کن کوڈز کا ذکر کر رہا ہوں۔ اب آتے ہیں اس فلم کی طرف میں اسکی اسٹوری سے بحث نہیں کرونگا وہ آپ خود نیچے لنک پرکلک کر کے دیکھ لیجئےگا۔ میں بات کرونگا ایک مرے ہوئے انسان کے نکالے ہوئے دماغ کی اس آٹھ منٹ کی میموری کی جسے بار بار کوڈ دیکر اس کے ماضی میں بھیجا جاتا ہے اور اس ٹرین بومبر کو کہ جس کے نتیجے میں شہر کی بڑی ہلاکتیں ہوئیں تھیں کھوج لگایا جاسکےکہ اس دماغ نے اس وقت آخری آٹھ منٹ کے دورانئے میں کن کن لوگوں کو مشکوک حالتوں میں دیکھا تھا۔
سائینسدانوں کے بار بار ٹرایئل موڈ سے باالآخروہ اپنا ٹارگٹ کھوج نکالتے ہیں کہ جسکی انہیں تلاش ہو تی ہے۔آخر میں اس دماغ کی طرف سے ٹیسٹ کرنے والے سائینسدان کو کمپیوٹر پر ایک پیغام ملتا ہے اس نے جتنے بھی ٹرائیل کئے وہ درست تھے اور وہ اب آزاد ہے جہاں بھی ہے۔مزید کہتا ہے کہ یہ سارے ٹرایئیل فرضی نہیں ہیں بلکہ ایک متبادل حقائق کا راستہ ہے۔وہ سائینسدان کو اسکے دئے کوڈز کی حقیقی صلاحیت کے بارے میں بتاتا ہےاور اس سے اس کی متبادل حقیقت کی مدد کرنے کو کہتا ہے۔
(نوٹ: نیچے دئیے گئے مووی لنک کو صرف اور صرف عوام الناس کی آگاہی کیلئے شئیر کرایا گیا ہے تاکہ عوام میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور موجودہ ذمانےمیں اس کی تطبیق کے حوالے سے انفارمیشن اپ ڈیٹ رہے)
اس فلم سے پیدا
شدہ سوالات ہمارے دماغ کے تمام خلیوں کو ذبردست متاثر کرتا ہے۔
سوال
نمبر ایک۔مر جانے کے بعد
دماغ کتنی دیر تک کام کرسکتا ہے۔
سوال
نمبر دو۔کیا مرنے سے کچھ
دیر پہلے کی ساعتوں کو کسی فلاپی میں محفوظ کیا جاسکتا ہے
سوال
نمبر تین۔ مان لیا
جائے کہ اوپر دونوں سوالوں کے مثبت جوابات ہیں تو اس ضمن میں اس دماغ کو کسی اور
مرے ہوئے انسان کا جسم دے سکتے ہیں۔جیسا کہ فلم کے آخری حصے میں سائینسدان کو دماغ
کی جانب سے اسکی مدد کرنے کا پیغام موصول ہوتا ہے۔
سوال
نمبر چار۔ جو سب سے اہم
سوال ہے وہ یہ کہ کیا ماضی میں جا کر ماضی
کی واقعات میں چھیڑ چھاڑ کرنا ممکن ہے۔
اگر اس کا جواب مثبت میں ہے تو میں اس فلم کے رائیٹر کو دعوت دونگا کہ
عوام کو مستقبل کی تعریف سے آگاہ کرے کیونکہ اس طرح کا آئیڈیا دیکر دراصل آپ فزکس
کے موجودہ قوانین کوتوڑ رہے ہیں۔
آپ
سب حضرات سے درخواست ہے کی فلم کو دیکھنے کے بعد اپنی آراء کو نیچے کمنٹس
باکس میں ضرور ٹائپ کیجئے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments