🧬
جین تھراپی اور انسانی زندگی کی نئی دوا سے مریضوں کی اموات – حقیقت کیا ہے؟
تعارف:
جین تھراپی کیا ہے؟
جین
تھراپی جدید
حیاتیاتی سائنس کا ایک حیرت انگیز شعبہ ہے جس کا مقصد جینیاتی سطح پر بیماریوں کا
علاج کرنا ہے۔ اس میں ڈی این اے کے متاثرہ حصوں کو ٹھیک کیا جاتا ہے یا نئے جینز
انسانی جسم میں داخل کیے جاتے ہیں تاکہ بیمار خلیات کو درست کیا جا سکے۔
حال ہی میں "سیریپٹا تھیرا پیوٹکس " نامی
ایک امریکی بایو ٹیکنالوجی کمپنی نے جین تھراپی کی دنیا میں ایک انقلابی قدم
اٹھایا۔ اس کمپنی نے ایک ایسی دوا بنائی جس کا مقصد بچوں میں پائی جانے والی ایک
مہلک بیماری Duchenne Muscular Dystrophy (DMD) کا علاج کرنا ہے۔
🧪 سیریپٹا جین تھراپی کیا
ہے؟
اس تھراپی نے Elevidys کے ذریعے یہ دعویٰ کیا کہ یہ دوا DMD کے مریضوں میں ایک خاص جین کو درست کرتی ہے جو عضلات کی
کمزوری اور خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ یہ دوا خاص طور پر ان بچوں اور نوجوانوں کے لیے
متعارف کروائی گئی تھی جو اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ دوا
AAV Vector نامی
ایک وائرس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل کی جاتی ہے، جو جین تھراپی کے لیے ایک معیاری طریقہ ہے ۔ اس طریقہ کار میں وائرس
کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ انسانی جینوم میں داخل ہو کر متاثرہ جین کو بدل سکے۔
🧒 ڈی ایم ڈی ایک مہلک بیماری
کا تعارف
ڈیوشن مسکیولر ڈسٹرافی ایک
نایاب لیکن نہایت ہی خطرناک جینیاتی بیماری ہے جو زیادہ تر لڑکوں کو متاثر کرتی
ہے۔ یہ بیماری عضلات کو کمزور کرتی ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ مریض کی چلنے کی
صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ سانس لینے کے لیے بھی مدد کی ضرورت لینا پڑجاتی ہے۔ اس طرح کی بیماری میں مبتلا زیادہ
تر مریض 20 سے 30 سال کی عمر ہی میں وفات
پا جاتے ہیں۔
تازہ
ترین سانحہ: دوا کے بعد دوسرا مریض جاں بحق
جون
2025 میں ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آئیکہ اسی دوا کے
استعمال کے بعد ڈی ایم ڈی کا ایک دوسرا مریض
جاں بحق ہو گیا۔ یہ مریض چلنے پھرنے سے قاصر
(non-ambulatory) تھا، اور اس کی موت شدید جگر فیل ہونے (Acute Liver Failure) کی وجہ
سے ہوئی۔
اس سے
قبل مارچ میں بھی ایک 16 سالہ نوجوان اسی دوا کے استعمال کے بعد جان کی بازی ہار
گیا تھا۔ دونوں اموات نے دوا کی حفاظتی نوعیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
🧫 جگر فیل ہونے کی
ممکنہ وجہ کیا ہے؟
جین
تھراپی میں استعمال ہونے والے AAV ویکٹرز
بعض اوقات جگر پر اثر انداز ہوتے ہیں، کیونکہ دوا براہِ راست جگر میں داخل ہوتی ہے
یا وہاں زیادہ سرگرم ہوتی ہے۔ اگر مریض کا مدافعتی نظام ردعمل دیتا ہے، تو یہ جگر
کے خلیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسی لیے اب ماہرین ایک نئی Immunosuppressive Regimen (مدافعتی نظام کو دبانے والی دوا کا مجموعہ) کی تیاری میں لگے ہیں
تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔
کمپنی
کا ردعمل: دو قدم پیچھے، احتیاط کے لیے
کمپنی نے
فوری طور پر دوا کی فراہمی غیر چلنے والے مریضوں کے لیے روک دی ہے اور ایک ماہرین
کی ٹیم تشکیل دی ہے جو اس مسئلے کا حل تلاش کرے گی۔ کمپنی اب sirolimus جیسی
ادویات پر تحقیق کر رہی ہے تاکہ جگر پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
کمپنی
نے اپنے جاری کلینیکل ٹرائل کو بھی روک دیا ہے، جو کہ اس دوا کی مکمل
منظوری کے لیے ایک لازمی مرحلہ ہے۔
ایف ڈی اے کا کردار اور سیاسی پس منظر
امریکی
ادارہ ایف ڈی اے نے فی الحال اس دوائی کو ابتدائی طور پر ایک محدود گروپ (4 سے 5
سال کے بچے) کے لیے منظور کیا تھا، لیکن بعد میں تمام مریضوں کے لیے منظوری دے دی
گئی۔ تاہم، دو اموات کے بعد یہ منظوری اب شدید تنقید کی زد میں ہے۔
مارچ
2025 میں ایف ڈٰ اے کے ایک اعلیٰ
عہدیدار پیٹر مارکس نے سیاسی دباؤ اور سائنسی اصولوں سے ہٹ کر فیصلے کرنے
پر استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارہ اب سچائی کی بجائے سیاست کا غلام بنتا
جا رہا ہے۔
معاشی
اثرات: جین تھراپی کے مستقبل پر دھچکہ
Elevidys نے 2024 میں $820 ملین کی فروخت کی، اور
کمپنی کو امید تھی کہ یہ مستقبل میں اربوں کی مارکیٹ بنے گی۔ مگر اب سرمایہ کار
اور ڈاکٹرز اس دوا سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر مزید
اموات ہوئیں، تو والدین اس دوا کو مکمل طور پر مسترد کر دیں گے۔
کیا
جین تھراپی اب بھی امید کی کرن ہے؟
یہ
سوال اب سائنسی دنیا میں شدت سے اٹھ رہا ہے۔ جین تھراپی واقعی حیرت انگیز امکانات
رکھتی ہے، مگر اس کے خطرات بھی حقیقی ہیں۔ مریضوں کی زندگیاں تجربہ گاہ نہیں ہو
سکتیں۔ ہر دوا کی منظوری ایک ذمہ داری ہے جسے اداروں، کمپنیوں اور سائنسدانوں کو
بخوبی نبھانا ہو گا۔
نتیجہ:
احتیاط، تحقیق اور انسانی جان کی قدر
سریپٹا کی دوا نے بہرحال ایک امیدکی کرن تو ضرور دی، مگر دو اموات نے اس
امید کو پھر سے چیلنج کر دیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ سائنسی برادری، ریگولیٹری ادارے، اور
ادویات ساز کمپنیاں مل کر ایک ایسا نظام بنائیں جو مریض کی حفاظت کو ہر چیز پر
مقدم رکھے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments