Swipe to Future |
HELLO WORLD
اس سے پہلے جب مجھے
میٹاورس کے حوالے سے لکھنے کا موقع ملا تھا تو اس میں میں نے اس کی ایپلی کیشن اور
اس کے فنکشن کے حوالے سے بات کی تھی جسے آپ دوبارہ یاد دہانی کے طور پر اسی جگہ پر کلک کر کے مطالعہ کر سکتے ہیں۔
آج ہم یہ بتانے جارہے
ہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کیسے ہماری ذندگیوں کو بدل رہی ہے۔اور آج سے پانچ یا دس سال بعد
کیسے ہماری ذندگیاں بدلنے جارہی ہیں۔میرا اشارہ ڈیجیٹل ایویتار ٹیکنالوجی کی طرف ہے
کہ وہ مستقبل میں کیا کچھ ہو سکتے ہیں اور ہماری معاشی اور معاشرتی ذندگیوں کوکس
طرح کا امپیکٹ دے سکتے ہیں۔انسان وقت کے
ساتھ ساتھ تیزی سے تجربات کی طرف بڑھ رہا ہےاور ان تجربات کی رفتار کا ندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے قریبا" دس ہزار سال پہلے انسان نے لکھنے کا
عمل شروع کیا تھا۔دس ہزار سال بعد اس نے پرنٹنگ پریس بنایا اورا س کے اگلے پانچ سو سالوں میں پرنٹنگ پریس سے الیکٹرانک میلز
(ای-میل) پر چلا گیا۔تو کہاں دس ہزار سالوں میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور کہاں صرف
پانچ سوسال کے عرصے میں ای-میل پر آنا۔اس
طرح کم سے کم عرصوں میں انسان کی چھلانگ تجربات کے میدان میں تیز سے تیز تر ہوتی
جارہی ہے۔اور ہم چونکہ اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں تجربات کا بہت ذیادہ کامپی ٹیشن
ہے اس لئے ہمیں اس کے ساتھ بھی چلنا ہے۔ کیونکہ مستقبل میں سب ہی ڈیجیٹل ورلڈ میں
ضم ہونے جارہا ہے۔اور اگر اس دنیا کی پیشگی معلومات نا ہو تو ہم بہت جلد آنے والے
دور میں کسی بھی قسم کا نقصان اٹھا سکتے ہیں۔
کینیڈا کی ایک مشہور کمپنی "سول مشین" کے چئیرمین "مارک سیگر"جوکہ پیشے سے ایک "بائیوانجنئیر" ہیں ۔انھونے اینی میشن میں ہالی وڈ کیلئے بہت ذیادہ کام کیا ہے۔ہالی وڈ کی فلم "کنگ کانگ" اگر آپ نے واچ کی ہو تو اس کے گرافکس اور فیس ایکسپریشن مارک ہی نے ڈیزائن کئے تھے۔اکیڈمی ایوارڈ ونر ہونے کے باوجود بھی انھونے نے اپنے کام کو سوئچ کیا اور واپس نیوزی لینڈ آکر اپنے یونیک پراجیکٹ جس کا نام انھونے "بے بی-ایکس" رکھا ہےکام کو شروع کیا۔اب آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہالی وڈ جیسے ادارے کی نوکری کو سوئچ کرکے اپنا ایک سوفٹ وئیر کھولنا۔ تو مارک کس اوپری لیول کا کام کرنے جارہے ہیں ۔اور انھونے جو کمپنی کھولی ہے وہ مستقبل میں " ڈیجیٹل انٹر ایکٹو ایویتار" بنائے گی۔اور بالخصوص فیس بک سے جو میٹا ورس بننے جارہی ہے اور بالعموم گیم زون کمپنیوں سے جو میٹاورس پلیٹ فارم کی طرف جارہی ہیں کارپوریٹ معاہدے کرکے ان کے لئے ڈیجیٹل ایویتار بنائے گی اور انھی سے ورک فورس خریدے گی۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ایویتار ایک ایسا لباس ہوگا جس کو اپنا کر آپ اس گیم کا حصہ بن سکیں گے جو ورچول بنیادوں پر بنا ئے گئے ہونگے۔لیکن سول مشین جو ایوتار بناکر اپنے کسٹمر کو خدمات فراہم کریگی وہ ہونگے تو ڈیجیٹل ہی مگر وہ سب یونی کوڈز ہونگے مطلب ان میں بار بار کوڈز دینے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔یہ ڈیجیٹل ایویتارانسانوں سے ہی لرننگ کرینگے اور انہی لرننگ سے اپنی ڈیجیٹل اسکلز کو تیز سے تیز تر کرینگے۔
ان کا نروس سسٹم ہوگا۔ان کا دماغ ہوگا۔ان کے مسلز ہونگے۔اور جیسے جیسے انسان ان کے ساتھ انٹر ایکٹ کریگا یہ ا س کے ایکسپریشن بات کرنے کا اسٹائل چال ڈھال چیزوں کی پہچان کرنے لگیں گے۔ان ایویتار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوگی کہ یہ موقع کی مناسبت سے موقع پر ہی چیزوں سے انٹرایکٹ کرینگے۔اسطرح یہ فیس بک اور دیگر میٹاورس پلیٹ فارم پر ڈیجیٹل ورک فورس کے نام سے سامنے آئینگے۔یہ اپنے اندر جذبات رکھیں گے۔ہنستے ہوئے انسان کے ساتھ ہنسیں گے۔ رونے والے کےساتھ غم بنائیں گے۔اور باڈی کو بھی اپنی مرضی سے حرکت دے سکیں گے۔یعنی ان میں بھر پور انٹیلی جینس ہوگی۔سب سے پہلے جو پراجیکٹ انھونے لانچ کیا اس کا نام ہے "بےبی-ایکس"۔اس کا ایویتار انھونے اپنی بیٹی کی طرح بنایا۔
اس ایویتار کو شعور کیساتھ ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں بھی د ی جارہی ہیں۔یہ ایوتار انسان کو دیکھے گا اور اس کی ان پٹ اس کی آنکھوں میں لگے ویب کیم کے ذریعے اس کے سسٹم میں اسٹور ہورہی ہیں۔جب مارک اس کی طرف دیکھ کر ہنستا ہے تو یہ ایوتار بھی ہنستا ہے اور جب مارک اسے غم کا احساس دلاتا ہے تو یہ ایویتار رونا شروع کردیتا ہے۔ کیونکہ اس نے ایک بچے کی طرح لرننگ کرنا ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہماری ذندگی ہےکہ ہمارے ہر ایکٹ میں نیورونیٹ ورک کام کرتے ہیں۔اور نیورو نیٹ ورک انسان کو انٹیلی جینس بناتا ہے۔ایک عام انسان کے دماغ میں 80 سے 85 بلین سیل موجود ہوتے ہیں جنھیں نیورونز کہا جاتا ہے۔ایک سیل 100 سے دس ہزار تک کنیکشن کرسکتا ہے۔اس طرح ایک انسانی دماغ میں ٹریلین کنیکشن ہوتے ہیں۔جب انسان کسی چیز کو سمجھتا ہے یا سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے یا لرننگ کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت یہ بہت ذیادہ نیورو کنیکشن بن رہے ہوتے ہیں۔
آرٹیفیشل نیورو نیٹ ورک ٹیکنا لوجی بھی انھی اصولوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بنائے جاتی ہے۔یاد رہے کہ ایک "بے بی-ایکس" اپنےویب کیم جو اس کی آنکھوں میں لینسنگ کا کام کرتے ہیں انفا رمیشن کو بار بار دیکھ کر لرننگ کریگا اور ڈیٹا کو اپنے اندرفیڈ کریگا۔یہ اس لئے کہ یہ ایویتار پیٹرن کی پہچان کرسکے اور ان ڈی جینئس یعنی موقع کی مناسبت سے خود کار فیصلہ کرسکے ۔ اس کا بہت ذیادہ فائدہ ویڈیوگیم کمپنیوں کو ہوگا کیونکہ اس میں وار گیمز کے سپاہی جنگ کی شروعات سے ہی مرنا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ اس لئے بھی کہ یہ سپاہی آرڈر کو فولو کرتے ہیں۔مگر ڈیجیٹل ایویتار سپاہیوں کی جگہ ڈیجیٹل اسنائپر کو فروغ دیگا جو موقع پر خود سے خودکار فیصلہ کرکے دماغ سے ہر قدم اٹھائیگا۔کیونکہ ان کے پیچھے کوئی کوڈ کام نہیں کر رہا۔یہ خود سے ہی لرننگ کر کے اپنے فیصلوں کو آزادانہ خود مختاری کیساتھ جنگ کی حکمت عملی کو سیٹ کریگا۔مثال کے طور پر حال ہی میں مارک نے ایک امریکن سنگر "ولیم جیمز ایڈم" جن کے بینڈ کا نام انہی کے نام سے منسوب ہے "ول-آئی-ایم"کو اپروچ کیا کہ وہ ان کا ڈیجیٹل ایوتار بنانا چاہتے ہیں۔
جس کا مقصد ایک ہی وقت میں دو الگ الگ جگہوں پر دو الگ الگ کنسرٹ میں اپنی شمولیت کر کے کم سے کم وقت میں ذیادو سے ذیادہ کمرشل ورک کرکے دولت کو سمیٹا جائے۔یعنی ایک جگہ تو ولیم خود کنسرٹ کر رہا ہوگا مگر اسی وقت کسی دوسرے مقام پر ولیم کا تھری-ڈی ایویتار ورچول پرفارم کر رہا ہوگا۔ولیم کا ایوتار بنانے کیلئے ان کی بہت سی تصویریں لی گئیں اور ان کے مختلف ایکسپریشن کواپنے آرکائیو میں محفوظ کیا۔ کیونکہ انکی فزیکل شکل بنانا ہے۔ اسلئے ذیادہ سے ذیادہ ان کی ایکسپریشن کو لیا گیا ہنستے ہوئے کیسے لگتے ہیں غم میں کیسے لگتے ہیں غصے میں کیا کرتے ہیں لوگوں سے کیسے ملتے ہیں ان کی آڈیو رکو ریکارڈ کیا گیا خوشی کے الفاظ بے بسی میں کیا الفاظ ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ تاکہ ان کا ایویتار ان کی ہو بہو کاپی لگے اور تماشائی ان کے کنسرٹ کو مکمل انجوائے کرسکیں اور ان کو یہ احساس نا ہونے دے کہ یہ ولیم کی کاپی ہے۔ کمپیوٹر جنریٹڈ امیج جسے سی-جی-آئی کہتے ہیں ان ایویتار کی مدد کرتا ہے۔آپ آنے والے دنوں میں کمپیوٹر پر چیٹ وارڈ نہیں دیکھیں گے بلکہ ایک ڈیئلاگ باکس اوپن ہوگا اور اس میں کسی بھی کردار کا ایویتار ظاہر ہوگا جو آپ سے لائو چیٹ کریگا۔ اس طرح جس کردار کا ایویتار ظاہر ہوگا وہ کسی انسان ہی کی کاپی ہوگی جو اس ایوتار کی فیس چارج کریگا۔اگر یہ کردار کسی سیلی بریٹی کی ہوئی تو ذیادہ فیس چارج ہوسکتی ہے۔اسی طرح مستقبل میں ایوتار کے کلون کاپیاں بنیں گی اور یوں کمرشل ورلڈمیں ایک ذبردست تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔حال ہی میں ڈیجیٹل کار ایکسپرٹ ایوتار بہت مشہور ہوا ہے اور گاڑیوں کی کمپنیاں اس ایویتار کی کلون کاپیاں حاصل کرنے کیلئے تگ ودو میں ہیں۔
بچوں کیلئے اسپیشل ایوتار آئینگے
جو بچوں کو ان کی ضروری انفارمیشن مہیا کرینگے۔اور یہ ایوتار خود بھی ان بچو ں سے
ایکسپریشن کی لرننگ کرینگے۔ یعنی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا
ہونگے۔اس طرح سے یہ ایوتار ایک کھلونا بھی ہوگا، ٹیچر بھی ہوگا اور خود ایک لرنر
بھی ہوگا۔یہ ایوتار مستقبل میں ایک پرسنل برانڈ ہونگے۔جس کی ویلیو ان ایوتار کے پس
پردہ اصلی انسان کی اسکلز سے طے ہونگی۔مثال کے طور پر ایک طالب علم کو اسٹیٹس کا
سبجیکٹ پڑھنا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے سوالوں کے جوابات فلاں ٹیچر بآسانی دے سکتا ہے تو وہ اس ٹیچر کا ایویتار خریدے گا۔اس
طرح کسی بھی ایویتار کی قیمت اس کی اوریجنل کاپی طے کریگی ۔آپ اس بار ے میں کیا
رائے رکھتے ہیں کمنٹ کرکے اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔اگلے آرٹیکل میں اس
ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہونے والے فوائد اور نقصانات سامنے لانے کی کوشش
کرونگا۔کیونکہ یہی دنیا کا فیزیکل قانون ہےکہ چیز کو دو آسپیکٹ میں بانٹنا چاہیئے
تاکہ اس چیز کی تمام شکلوں کا بھرپور جائزہ لیکر اس پر کامل حکمت عملی کیساتھ ری ایکٹ
کیا جائے۔اور یہی چیز اصل کو نقل سے جدا کرتی ہے۔
Click here for video |
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments