تعارف
دوسری جنگِ عظیم کے آخری مرحلے میں جاری جنگ میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں کو نشانہ بنایا اور یہ اس وقت تک اس کرۃّ ارض کا پہلا مصنوعی تجربہ تھا جس میں تابکار شعاعوں والا بم استعمال کیا گیا جسے آج کی سائینسی دنیا ایٹم بم کا نام دیتی ہے۔ اس سے قریبا" ہر چیز تحس نحس ہو گئی اور کوئی ذی روح ان بے رحم شعاعوں کے قہر سے نہیں بچ سکی۔
کیا انسان کیا جانور کیا چرند کیا پرند کیا حشرات الارض کیا کیڑے کیا مکوڑے سب کچھ نا صرف تباہ و برباد ہوکر رہ گیا تھا بلکہ ساری ہی موجودہ چیزیں ہوا میں بخارات بن کر اڑ گئے تھے۔ ان تمام واقعات کے بعد ماہرین حیاتیات کی ایک ٹیم نےوہاں کی تمام جانی صورتحال پر اپنی رپورٹ مرتب کی جس میں ایک عجیب حقیقت یہ نکل کر سامنےآئی کہ اس خطرنات ہتھیار سے جہاں ہر چیز ختم ہوگئی تھی وہاں ایک جاندار مخلوق ایسی بھی تھی جو بلا خوف وڈر وہاں چل پھر رہی تھی اور ایسے ذندہ تھی جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نا ہو ۔ اس جاندار مخلوق کو دنیا "لال بیگ" کے نام سے جانتی ہے۔تاریخ حشرات الارض ہمیں یہ بتاتی ہے کہ لال بیگ کے روچ فوسلز 350 ملین سال پرانے ہیں یعنی یہ کیڑا ڈائنوسارز سے بھی 150 ملین سال پرانا ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق ہماری اس وشال دنیا میں لال بیگ ایک ایسا کیڑا ہے جو خطرے کا احساس ہوتے ہی اپنے تمام خلیات کو منجمد کرلیتا ہے۔وہ خود پر عارضی موت طاری کرلیتا ہے۔یوں وہ ایک خود کار ممی کے طور پر دوبارہ ابھرتا ہے اور وقت اس کیلئے رک سا جاتا ہے۔وہ کئی ہفتوں کے بعد جب جاگتا ہے تو اپنی ذندگی کو وہیں سے شروع کرتا ہے جہاں اس نے چھوڑی تھی ۔ اس کیڑے میں قدرت کی طرف سے ایک اور ذبردست خوبی یہ ہےکہ یہ کیڑا ہرماحول میں ہرموسم میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلیتا ہے۔اس سے بہترین اور بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کا سب سے طاقتور بم بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ۔اور صرف یہیں تک ہی بس نہیں ہوتا ۔ سائینسدانوں کی ایک ٹیم نے اسے مزید تجربات سے گزارا۔ اور تابکار شعاعوں کو تین گنا بڑھا کرسائنٹفک جار میں رکھا ۔لیکن سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چار دن اپنے آپ کو مصنوعی مردہ کر کے اس کیڑے نے حرکت کی اور پھر اپنے اندر قدرت کی طرف سے عطا کردہ حیرت انگیز طور پر جنیاتی تبدیلی کر کے پھر سے ان تابکار شعاعوں میں اٹھ کر چلنے پھرنے لگا۔
اس
طرح 1945 کے بعد اس کیڑےنے جنیاتی
سائنسدانوں کی بھر پور توجہ حاصل کی۔اور یہی وہ دور تھا جب ایک مہان سائنسدان البرٹ آینسٹائن نے کہا تھا کہ آج کے بعد سے
فزکس میٹا فزکس میں ڈھلتی چلے جائیگی یہاں تک کہ ہم کوانٹم ورلڈ کے عجائبات کو
سمجھنے کے قابل ہوجائینگے۔
CRYOGENIC SLEEP / SUSPENDED ANIMATION
/ HIBERNATION
لاکھوں نوری سال تک پھیلے کائنتات کے فاصلے اور ان فاصلوں میں موت کی ہزاروں قسمیں انسانی تحقیق کے راستوں کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ہم روشنی کی رفتار سے دس گنا ذیادہ رفتار سے بھی سفر کریں تب بھی کائنات کی طبعی سیاحت کے لئے ستر اسیّ سال کی ذندگی ناکافی ہے۔
کائناتی وقت کے حساب سے ہماری ذندگی ایک پلک جھپکتے لمحے کا کڑوڑ واں حصہ بھی نہیں ہے۔کیونکہ اس جدید سائینس کے ذمانے میں جہاں ہم نے سپر کمپیوٹر جیسے روبورٹ تیار کرلئے ہیں وہیں ہم ذمین سے آسمان تک کے فاصلے کو نوری سال سے پیمائش کرنے سے قاصر ہیں۔ہماری اس دنیا سے باہر صرف گھنٹے ہی سینکڑوں سال میں محیط ہیں۔ہمیں کائنتا ت کی حقیقی سیاحت کیلئے نا صرف کڑوڑوں سال کی ذندگی بلکہ بوقتِ ضرورت ہر قسم کے ماحول میں سر وائو کرنے والا ایک وجود بھی چاہئیے۔چلئے مان لیتے ہیں کہ قدرت نے ہمیں یہ دونوں وصف عطاکر بھی دئے۔
لیکن ہزاروں برس کا خلائی سفرکٹے گا کیسے؟ یہاں سفر میں دل بہلانے کیلئے کئی طرح کے سامان ہوتے ہیں۔باہر خوبصورت نظارے ہوتے ہیں اور اندر ایک لگژری سواری کا سیٹ اپ ہوتا ہے۔لیکن پھر بھی ہماری نظر گھڑی اور جی۔پی۔ایس سے نہیں ہٹتی۔ جبکہ اسپیس ٹریول ایک الگ اور خوفناک چیز ہے۔اسپیس کا سفر کئی کئی سال گھپ اندھیرے میں طے ہوگا تو کئی کئی سال چندھیا جانے والی روشنی میں گزرے گا۔ایک انسان فطرتا" ایسے سفر کا ہر گز متحمل نہیں ہوسکتا۔لہذا ہمیں کوئی دوسرا راستہ کھوجنا ہوگا۔اور دوسرا راستہ ہے صدیوں کی نیند۔
ایک عام انسان کو
یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ سائنسدا ن جب کسی چیز کی ہائپوتھیسس قائم کرتے ہیں تو
اس میں درج ذیل دو چیزوں کو پہلے اسٹیپ سے بھی پہلے یہ چیک کرتے ہیں کہ:۔
1۔ اس پراجیکٹ کا یا اس آئیڈیا کا تاریخی ریکارڈ کیا ہے۔یعنی ہسٹری میں اس سے
ملتا جلتا کوئی پراجیکٹ یا حادثہ رونما ہوا ہے۔
2۔ نیچرل ریکارڈ۔ یعنی جس پراجیکٹ کا ہم نے انتخاب کیا ہے کیا یہ ہماری اصلی
دنیا میں کبھی وقوع ہواہے۔
تو ہسٹری ریکارڈ کے مطابق صدیوں کی نیند انسان کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔بلکہ اس کا مذہبی حوالے سے آسمانی کتابوں میں پراپر ریکارڈ موجود ہے۔
جبکہ
موجودہ نیچرل ریکارڈ میں لال بیگ، بھالو، کچوا، برفانی ریچھ اور س طرح کے دوسرے
جانور چھ چھ ماہ کی لمبی نیند لیتے ہیں یا پھر جب چاہیں خود سے موت جیسی کیفیت
طاری کر کےلمبے عرصے تک انڈر گراؤنڈ ہوجاتے ہیں
اور اٹھنے کے بعد وہ اپنی ذندگی کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں انھونے
چھوڑی تھی۔میڈیکل اور جدید سائینسی ذبان میں اسے ہائبرنیشن یا سسپینڈٹ اینی میشن
کہتے ہیں۔یہ سمجھنے میں مشکل ترین چیز ہے۔مگر میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
ہائبرنیشن نیند کی ایک پراسرار قسم ہے۔جو بھالو اور برفانی جانوروں میں پائی
جاتی ہے۔جس میں جانور چھ چھ ماہ تک مصنوعی نیند لیتے ہیں۔اس دوران ان کا میٹا بولک
ریٹ (جسم کے اندرونی حصے کا کیمیائی عمل) انتہائی طور پر کم ہوجاتا ہے۔یعنی
جانوروں کے خلیات کا ورکنگ پراسس انتہائی سست ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ کئی کئی منٹ
تک سانس نہیں لیتے۔جس سے وقت کی تعریف ان کے لئے بدل جاتی ہے۔مطلب بیرونی دنیامیں
وقت اسی طرح رہیگا جس طرح ہے۔لیکن وہ
جانور جو ہائبرنیشن پراسس میں ہیں مستشنیٰ ہوجائینگے۔اور ان میں وقت کے ساتھ ساتھ
کوئی بھی ردو بدل نہیں ہوگا۔اور تحقیق کے مطابق جب وہ سات ماہ بعد اس نیند سے
جاگتے ہیں تو کل ملا کرصرف ایک ماہ کا
عرصہ ان کی ذندگی سے کم ہوا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھالو اور کچوا لمبے عرصے تک
اپنی ذندگی کو کھینچ دیتے ہیں۔اور یوں وہ کافی لمبے وقت تک ذندگی پاتے ہیں۔یہ
چیزبہت ذیادہ سمجھنے کے لا ئق ہےکہ اگر ہم وقت کو ایک مخلوق مانتے ہیں تو کن چیزوں
پر اس کے اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔مثلا" جب ہم وجدانی کیفیت میں مراقبہ کو
متواتر کرتے ہیں تو کیاوقت کہیں گم ہوجاتا
ہے؟ یا وقت کی تطبیق صرف حرکت والے اجسام کیساتھ مختص ہے؟کیا دماغ میں چلنے والے
کوانٹم الیکٹریکل سگنلز کےسامنے وقت ہار
مان لیتا ہے؟یا وقت تو موجود ہوتا ہے مگر ہمارا دماغ ہمارے جسم کو ورچول ورلڈکے لامتناہی
اسپیس میں کہیں اسٹور کردیتا ہے؟آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ اس مخصوص وقت کے تیزی کے ساتھ بھاگتے پہئے پرہم موجود
نہیں ہوتے۔؟
ریسرچ کے مطابق ایک جاندار کا ہائبرنیشن کی آخری پوزیشن پر آکر اسے وقت سے مستسنیٰ کردیتا ہے۔اور مکمل
طور پر اس حالت کو سسپینڈڈ اینی میشن کہتے ہیں۔طبعی طور پر سو سال کی ذندگی بھی اس
کائنات کی سیاحت کی لئے مذاق ہے۔اس لئے ہائبرنیشن پوزیشن ہی وہ واحد راستہ ہےجو
ہمیں کائنات کے رموز کو سمجھنے میں مدد کرسکتاہے۔اور اس راستے کو عبور کرنے کیلئے
سائینسدان "کرائیونکس چیمبر" استعمال کرئینگے۔یہ چیمبر ہمیں اس نیند
والی پوزیشن کے نکتے تک پہنچنے میں مدد کریگا جہاں سے سسپنڈڈ اینی میشن شروع ہوتی
ہے۔
CRYO SLEEP METHODS
کرائیو سلیپ میتھڈ دو طریقے سے کام کریگا۔
1۔ دوبارہ ذندہ ہونے کی امید میں اپنے
مردہ جسم کو ایک خاص ٹمپریچر پر ہنود رکھنا۔اس پراسس میں مرنے والے کے جسم سے فوری
طور پر دو منٹ کے اندر اندرسارا خون نکال کر
اس میں کیمیائی مواد ڈال دیا جاتا ہے۔ جس سے لاش کئی سال کیلئے محفوظ ہوجاتی
ہے۔پھر اسے دوبارہ ذندہ کرنے کے لئے تجربات کئے جاتے ہیں۔
2۔ دوسرے میتھڈ میں کرائیو سلیپ چیمبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔جو ایک ذندہ
انسان کے خلیات کی رفتار کو انتہائی طور پر کم کر کےاسے فریز کردیتا ہے۔یوں انسان
نیند کی ہائبرنیشن حالت میں چلاجاتا ہے۔
حالیہ ریسرچ کے مطابق سائینسدانوں کو فی الحال کوئی خاطر خوا کامیابی حاصل
نہیں ہوئی۔ چآنکہ ان تجربات میں کافی ڈالرز خرچ کردئے گئے ہیں۔لیکن
سائینسدان پر عظم ہیں کہ ایک دن انسان ہائبرنیشن نیند لینے میں مکمل طور پر کامیاب
ہو جائیگا۔اور وقت کو روک کر اسپیس میں کہیں دور چیزوں کا مشاہدہ بہت قریب سے
کرسکیں گے۔کیونکہ نیچرل اور ہسٹری دونوں میں ایسا حقیقی طور پر ہوچکا ہے۔(ویڈیو دیکھنے کیلئے کلک کیجئے)۔
تبصرہ
اگر ہم اس ٹیکنالوجی
کا جائزہ لیں اور قرآن کے علم الاعداد
والے لینس سے دیکھیں تو ذیل میں میں نے کچھ نقطوں کو کھولنے کو کوشش کی ہے جو
سراسر سمجھنے اور غور کرنے سے متعلق ہے۔
1۔ قرآن کریم میں دو
ایسے مقامات ہیں جہاں انسان اور وقت کی روک تھام کی براہِ راست بات کی گئی ہے۔
2۔ پہلا مقام سورۃ
البقرہ کی 259 آیت ہے جہاں اللہ نےحضرت عزیرؑ کا واقعہ بیان کیا اور اس میں وقت کی
مقدار کو بیان کیا جو سو سال ہے۔
3۔ دوسرا مقام سورۃ
الکہف کی 25 آیت ہےجس میں پھر وقت کی مقدار کو بیان کیا گیا ہے جو تین سو نو سال ہے۔
4۔ ان دونوں آیتوں
میں کامن بات یہ ہے کہ دونوںمیں اعداد کا مجموعہ7 بنتا ہے۔
5۔قرآن کا اعجاز ہے
کہ یہ ذرہ برابر بھی شک سے پاک ہے۔ س لئے ہوسکتا ہے کہ 7 نمبر کو ہائبر نیشن ٹیکنا لوجی سے کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی تعلق ہو۔
6۔ ہوسکتا ہے کہ 7
کسی آنے والے واقعات کے سال کی نشاندہی کررہا ہے۔ جو ھجری یا انگریزی دونوں
کلینڈروں میں سے ہوسکتا ہے۔جیسے 1447 ھجری کا مجموعہ 7 بنتا ہے اور 2023 کا مجموعہ
بھی 7 بنتا ہے۔یا آپ اعداد کو آگے پیچھے کر کے اپنے طریقے سے حساب لگاسکتے
ہیں۔میرا بیان کرنے کا مقصد صرف آئیڈیادیناہے۔
7۔ سورۃ
کہف میں نوجوانانِ توحید کی بات کی
گئی ہے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ان کی تعداد بھی سات ہی ہو۔
8۔ اصحابِ کہف کو
قدرت نے 309 سال غار میں سلا کر اس وقت کے ظالم بادشاہ کے قہر سے
بچائے رکھا۔جو اس بات کا بھی درس دیتا ہے کہ تعداد میں کمی کے باوجود بھی قدرت
میں پنہاں راز وں کو استعمال کر کے کچھ ایسے پراسرار راستے نکالے جاسکتے ہیں جوآپ
کو محفوظ کرسکتے ہیں۔
9۔ اصحابِ کہف اور
حضرت عزیر ؑ کے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ ان سب حضرات نے نا ہی اپنے جسموں پر کوئی
کیمیکل لگا یا تھا اور نا ہی کوئی الیکٹرانک ڈیوائس کا استعمال کیا تھاجس سے وہ
اتنے لمبے عرصے تک کیلئے سوئے رہے۔
10۔ اسی طرح جب ہم ہائبر جانوروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان پر اس عمل کیلئے موسم کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ برفانی بھالو چونکہ برف میں رہتا ہے اس لئے وہ اپنے خلیات کوبآسانی منجمند کرلیتا ہے تو پھر یہ بھی بتایا جائے کہ برفانی بھالو سے بھی ذیادہ لمبے عرصے تک اپنے آپ کو ہائبر کرنے والا کیڑا لال بیگ تو ہر موسم میں رہنے والا کیڑا ہوتا ہے وہ تو گٹر لائن بہنے والی انتہائی ذہریلی اور آتش ذدہ گیسس میں بھی سر واؤ کرلیتا ہے۔تو اس نکتہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان یاجانور جب چاہے جس موسم میں چاہے اپنے دماغ کے ہائبر سینس کو ایکٹیویٹ کر کے اپنی مرضی سے وقت سے آذاد ہوسکتا ہے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments