: ایک اہم پیغام خیر الناس من ینفع الناس۔ تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو بہترین انسان بنانا چاہتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جائے اور ان میں خیر بانٹنا شروع کردے۔ اور سب سے عمدہ چیز جو بانٹی جا سکتی ہے اور جس کے ذریعہ اوروں کو نفع پہنچایا جاسکتا ہے، وہ علم سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے جو پست کو بالا کرتی ہے۔ انسان کو فرشتوں پر جو شرف بخشا گیا اس کا بظاہر سبب علم کو ہی بنایا گیا۔ علم نافع کے حصول اور پھر اس پر مخلصانہ عمل کے ذریعہ سے ہی انسان اپنی راحتوں میں اضافہ اور اپنی سلامتی کو دوام بخش سکتا ہے، اور اپنی کھوئی ہوئی جنت کو دوبارہ سے پا سکتا ہے۔ یہ ہے وہ مقصد جس کے تحت یہ علمی پورٹل بنایا گیا ہے۔ کہ اس پورٹل کے توسط سے علم نافع کی ترویج کی داغ بیل ڈالی جائے۔ اس میں علم کی کسی خاص شاخ کی تخصیص نہیں بلکہ علم خواہ دینی ہو، خواہ سائنسی، خواہ عملی ہو خواہ نظری، اگر اس میں انسانیت کی فوز و فلاح ہے تو اس کو عام اور رائج کرنے میں کاوش کی جائے۔بے جا بحث، مسالکانہ کشاکش اور الحادی فکر کی ترویج کی بہرحال اس پورٹل پر کوئی گنجائش نہیں۔ ایسی ہر کوشش کی یہاں حوصلہ شکنی ہوگی۔مستقل قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ پورٹل کے علمی مقاصد کی تکمیل میں شامل ہوں اور اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو اور دوسروں کے علم و تجربہ سے خود کو مستفید کریں۔ اس کے لئیے جو حضرات بھی اپنے کالم کو اردو ورلڈ میں شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ اپنا کالم ہمیں ای میل کرسکتا ہے۔ ہمارے ای میل ایڈریس کے لئیے اوپررابطہ پر کلک کرکے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ جزاک اللہ۔ واسّلام
  مسنون تاریخوں کی افادیت اور حکمت خدا کی شان اور اسکی حکمت انسان پر کتنی مہربان ہے۔ انسان کے خون اور اس کے باقی اخلاط کا چاند کے ساتھ گہرا تعلق ہے جوں جوں چاند کی روشنی بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کا خون اور اس کے اغلاط جوش مارتے ہیں اور ابھرتے ہیں اسی لئے ہماری شریعت میں چاند کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کےحجامہ کو بہت نافع قرار دیا ہے۔ ان تاریخوں میں خون صفراء، سوداء بلغم اور دیگر اخلاط جوش میں ہوتے ہیں تب حجامہ کا مبارک عمل خون اور دیگر اخلاط میں سے بیماریوں کو چھانٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے پاس انسانی فطرت کے حوالے سے مکمل ہم آہنگ مسنون علاج موجود ہے جو کہ حجامہ کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے اور مسلمانوں کی تاریخ اور مہینہ بھی قمری ہے... اور قمری مہینے کی تاریخوں کا انسان کے جسم اور خون کے اتار چڑھاؤ سے گہرا تعلق ہے۔ حجامہ وسوسہ اور وہم دونوں روحانی امراض کا بہترین علاج کرتا ہے اس کے علاوہ الحمد للہ فالج سے لے کر کینسر‘ تک کے مریضوں کو اللہ تعالی نے حجامہ سے شفاء بخشی ہے۔

GRAVITATIONAL LENSING || What is Gravitational Lensing || Urdu


 


جب میں چھوٹا تھا تو ایک جادوگر ہماری گلی میں آیا تھااور اس نے  مختلف سکے اچھال کر بہت سے کرتب ایسے دکھائے تھے جسے میری ظاہری آنکھ یقین نہیں کر پائی ۔ سوال یہ نہیں کہ وہاں کھڑے کسی بھی شخص کو اس کرتب کا پس منظر جاننے میں دلچسپی نہیں۔بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ ایسی کیا چیز تھی جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم سے اوجھل تھی؟

 

اصل میں ہمیں کوئی  بھی چیز جب دکھائی دیتی ہے جب ہماری آنکھوں کےریسیپٹرز اسے قبول کرتے ہیں۔ہماری آنکھیں سیدھی روشنی کا واپس تعاقب کرکے اس کے اصل تک پہنچ کر اس چیز کا اندازہ لگاتی ہیں  کہ یہ چیز کیسی دکھتی ہے۔اگر ہم اس واپس جانے والی روشنی کو ہی موڑ دیں  یا جس میڈیم سے روشنی سفر کررہی ہو اس میڈیم ہی کو بدل دیں تو ہماری آنکھیں کبھی بھی یہ   نہیں سمجھ پائینگی کہ ان کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ ایک جادوگر ہماری اس نیچرل پریکٹس سے ٹرک کرتا ہے اور اور ہمارے ادراک کو کنفیوز کرتا ہے۔ اور اسی اثناء میں جادوگر آپ کو جو دکھانا چاہتا ہے وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ فزکس میں ٹائم اینڈ اسپیس کے گریویٹیشنل فیبرک میں ایسا کئی بار ہوتا ہے  کہ جس ستارے کو ہم اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں   بھاری ستارے اسپیس میں روشنی کو کئی بار موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے جو ستارہ ہمیں جہاں نظر آتا ہے وہ اصل میں اس جگہ کبھی ہوتا ہی نہیں ہے۔اس چیز کا اندازہ سائینسدانوں کو  ہبل  ٹیلی اسکوپ کے ذریعے پتا چلا۔اس کے بڑے سائز کے بدولت خلاء میں سب سے دور روشنی کو دیکھا جاسکتا ہےجس کی وجہ سے سائنسدانوں کو خلا کے بارے میں ذیادہ معلومات ملیں ہیں مگرجیمس ویب ٹیلی اسکوپ کے بعد  اب ہم  سچائی کو مزید قریب سے  دیکھ پائینگے چاہے دھندلی ہی سہی۔ 

 

تعارف

گریویٹیشنل لینسنگ  ہماری قدرت  کا سب سے اہم مظہر ہے  اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ قدرت کے اس عظیم مظہر کو سمجھنے کے بعد آپ کا ذاویہ  اور نکتہ نظر اس کائنات کے بارے میں یکسر بدل جائیگا۔ کبھی آپ سوچیں گے کہ جو کچھ ہماری آنکھ  بظاہر دیکھ رہی ہے  کیا یہ محض  ایک دھوکہ ہے؟یا قدرت کی طرف سے کوئی جادو ہے؟ یا شاید کچھ بھی اصل نہیں ہے اگر ایسا ہے تو اصل اور نقل کو واضع ہونا چاہئیے جو نہیں ہے  ۔ جانوروں میں لینسنگ کا الگ مظہر ہوتا ہے کچھ جانورں کو دوسرے جانور بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر کچھ جانوروں کو بڑے اور بہت بڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی طرح حشرات الارض کا معاملہ ہے ایک ریسرچ کے مطابق دنیا میں سانپ کے 2700 اقسام ہیں جن کا الگ الگ دیکھنے کا لینس ہے کچھ سانپ رنگوں کا امتزاج نہیں سمجھتے۔ مگر کچھ اس حد تک  سمجھتے ہیں کہ وہ جب چاہتے ہیں چیزوں کو اپنے حساب سے رنگتے ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ تے ہیں۔ مثلا" ایک سمندری سانپ اپنی آنکھوں کے انفرا ریڈ کا استعمال کرکے یہ پتا لگالیتا ہے کہ کس ذمین کے کس حصے میں اس کے شکاری گھات لگا کر بیٹھے ہیں ۔کچھ سانپوں کو دیوار کے پیچھے کا پتا لگ جاتا ہےکہ اس پار کیا رکھا ہے اسی طرح جب آپ باری باری اس  دنیا کی 72000 مخلوقات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرینگے تو ہوسکتا  ہے  کہ آپ کو ہر چیز ہی دھوکہ لگےکیونکہ آپ لینسنگ کی پرفیکٹ تعریف کرنے کے قابل ہی نہیں رہینگے

  

لینسنگ کا میکانزم

فی الحال ہمیں انسانوں کی لینسنگ کا میکانزم سمجھنا ہے  کہ کائناتی اسپیس میں چیزیں ہمیں کیسی دکھائی دیتی ہیں۔ اس  کو سمجھنے سے پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ:

 

1۔ ہماری آنکھیں چیزوں کو کیسے دیکھتی ہیں ؟ اور

2۔ لائٹ بینڈ کیسے ہوتی ہے؟

 

تو سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ہم چیزوں کو جب ہی دیکھ پاتے ہیں جب روشنی ہماری آنکھوں سے ٹکراتی ہے۔ اور روشنی اپنی فطرت میں خطِ مستقیم پرسفر کرتی ہے۔ اس طرح ہماری آنکھوں پر پڑنے والے روشنی کو ہماری آنکھیں اس روشنی کا واپس تعاقب کرتی ہیں  جس کے نتیجے میں ہم کسی چیزکا مشاہدہ کر پاتے ہیں۔

  

Actual and Virtual Image

 

یعنی جس راستے سے روشنی آئی ہے بعنہ اسی راستے کو فولو کرتے ہوئے آنکھیں اس کا امیج  بناتی ہیں۔ اور 

ہماری لینسنگ کی اسی پراپرٹی کی وجہ سے  ہماری آنکھوں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر کسی مادہ سے روشنی کا اخراج ہوتا ہے اور ہماری آنکھوں تک اس کی ریز پہنچیں  اور وہی جسم ہمیں دکھ رہا ہے۔یعنی ہماری آنکھیں اس کو آسانی سے بیک ٹریس کر پا رہی ہیں۔

 

 

لیکن اگر ہم اس میں ایک چالاکی کریں کہ جب  ہماری آنکھیں اس روشنی کو بیک ٹریس کر رہی ہوں تو ہم اس لائٹ کی رے کو ہی موڑ دیں تو اس کے نتیجے میں ہماری آنکھیں مکمل طور پر دھوکہ کھا جائینگی اور لائٹ کی رے بینڈ ہونے کے باوجود بھی ہماری آنکھیں اس روشنی کا  خطِ مستقیم میں تعاقب کرینگی اور اس سے حاصل ہونے والا امیج اصل نہیں بلکہ مجازی امیج دکھے گا۔کیونکہ ہماری آنکھیں یہ کبھی نہیں مان سکتیں کہ لائٹ بینڈ ہورہی ہے وہ اپنا بیک ٹریس سیدھی لائن مین جاری رکھتی ہے۔

 

 

اس کو اور آسان مثال سے سمجھتےہیں۔ مان لیجئے کہ اس جسم کے سامنے آپ نے لینس رکھ دیا۔ اور لینس روشنی کو بینڈ کرتا ہے۔جیسا کہ اوپر تصویر میں دکھا یا گیا ہے۔

 

اس طرح لینس روشنی کو  بینڈ کردیگااور ہمیں  اصل تصویر کی جگہ مجازی تصویر دکھائی دیگی   جو یا توچھوٹی دکھائی دیگی یا پھر ابھری ہوئی  جو منحصر کریگا کہ میڈیم کے درمیان لینس کس نیچر کا ہے ۔

 

اسی طرح ریفریکشن کے مضمون میں آپ نے ریئل اور اپیرینٹ ڈیپتھ کے بارے میں مطالعہ کیا ہوگا ۔ اس میں پانی کے اندر ایک مادہ  رکھا ہوا ہوتا ہے اور جب اس آبجیکٹ کو پانی کے باہر سے دیکھتے ہیں تووہ آبجیکٹ ہم کو اس کی اصلی پوزیشن پر نہیں دکھتا بلکہ اپنی اصلی پوزیشن سے تھوڑا اوپر دکھتا ہے۔

 


اس میں جب آپ غور کرینگے تو پتا چلے گا کہ آبجیکٹ نا صرف اپنی اصلی پوزیشن پر نہیں ہے بلکہ اس کا جسم بھی پھیلا ہواسا دکھائی دے رہاہے۔

  

ریفریکشن اور ریفلیکشن کے ان سادہ اصولوں کو اپنے ذہن میں رکھئے گا کیونکہ ابھی ہم گریویٹیشنل لینسنگ کو سمجھنے والے ہیں کہ اسپیس میں کسی ستارے  کو ہم کیسے دیکھ پاتے ہیں۔

 

GRAVITATIONAL LENSING

کہکشاؤں سے نکلنے والی روشنی کو بھی ہماری آنکھ ویسے ہی دیکھتی ہے جیسے ہم عام ذندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں۔اگر کہکشاؤں کی روشنی ہم تک اسپیس میں بینڈنگ کی وجہ سے پہنچ رہی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اسپیس میں ہم جس ستارے کا مشاہدہ کر رہے ہیں  نا ہی وہ اپنی اصل پوزیشن میں ہے اور نا ہی ہم اس کا رئیل امیج دیکھ رہے ہیں بلکہ کسی دوسرے بڑے ستارے نے اسپیس کو  اپنی طرف فولڈ کردیا جس سے اسپیس کا میڈیم بدل گیا اور ستارے سے ڈائیریکٹ پہنچنے والی روشنی کو اب ہم دوسرے ستارے کی بدولت اس کا مجازی امیج فوکس کر رہے ہیں۔اس کی موٹی مثال کان ویکس لینس ہے جس سے روشنی تیزی کیساتھ بینڈ ہوجاتی ہے۔

 

اس مضمون کو مزید اچھے سے سمجھنے کیلئے آپ کو لینسنگ کا تصور کلئیر کرنا ہوگا خاص کر؛

 

1۔ کانویکس لینس

2۔ کانکیو لینس

3۔ میگنی فائینگ لینس

 

کیا سچ بھی سچ ہے ؟ ایک علمی کالم 

اوپر بتائے گئے تینوں لینسنگ میں روشنی کی رفتار کا ہی عمل دخل ہوتا ہے۔ کسی میں آبجیکٹ چھوٹا دکھتا ہے کسی میں دور اور قریب دکھتا ہے کسی میں پھولا ہوا دکھتا ہے۔بعینہ اسی طرح گریوی ٹیشنل لینسنگ ہے کہ اسپیس کو کتنے بھاری ستاروں نے کتنا فولڈ کیا ہے۔کیونکہ آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق اسپیس میں اسپیس کی فولڈنگ دراصل ستاروں کے وزن اور اس کی کمیت کےبراہِ راست تناسب سے  ہوتی ہے۔ جیسا کہ نیچے تصویر میں دکھایا گیا ہے۔


روشنی کو بینڈ کرنے کے دو طریقے ہیں۔

 

1۔ یا تو میڈیم کو بدل دیں

2۔ یا جس میڈیم میں روشنی چل رہی ہے اسی کا شیپ بدل دیں یا موڑ دیں۔

 

سورج سے ہماری ذمین کی  طرف اسپیس کے میڈیم  سے سفر کرتے ہوئے لائٹ آرہی ہے ۔اسپیس ہماری کائنات میں ایک چادر کی طرح ویکیوم میں پھیلی ہوئی ہے۔جو بڑے بڑے ستاروں کےوذن سے بینڈ ہوجاتی ہے۔

Bending Space
Bending Space

عمومی نظریہ اضافیت نے اسے کافی تفصیل سے ذکر کیا ہےکہ اسپیس بھاری جسم والے ستاروں سے کیوں بینڈ ہوتا ہے۔

 

مان لیجئے کہ سورج کے پیچھے کوئی  ایسا ستارہ موجود ہے جسے ہم اپنی ذمین سے نہیں دیکھ پارہے  مگر چونکہ اس ستارے اور ہماری ذمین کے درمیان سورج  جیسا بھاری ستارہ موجود ہے اسلئے سورج سے پیدا ہونے والی اسپیس بینڈنگ اس سورج سے نکلنے والی روشنی کو بینڈ کردیگی جس کی وجہ سے ہم اس ستارے کو جو سورج کے عقب میں ہے  صحیح .پوزیشن کا پتا نہیں لگا پائینگے

 

Gravitational Lansing
Gravitational Lansing

سن 1919 میں ایڈنٹنگ نے اس بات کو ثابت کیا کہ آئنسٹائن کاعمومی نظریہ واقعی کام کرتا ہے اور اسپیس میں مادے سے جھکاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔

 

 

تو چونکہ ہماری آنکھیں روشنی کو بیک ٹریس کرکے مادے کا مشاہدہ کرتی ہیں اس لئے وہ ستارہ جو سورج کے عقب میں ہے ہمیں کبھی بھی اپنی اصلی پوزیشن میں نہیں دکھے گا۔یہاں سورج لینسنگ کا کردار ادا کرتے ہوئے  باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

 

 

اسے کہتے ہیں gravitational Lansing  جس کے ہوتے ہوئے انسان کبھی بھی کسی بھی کہکشاں کو اس کی اصلی پوزیشن پر مشاہدہ نہیں کرسکتا۔اسی طرح اگر ہم روشنی کی رفتار کی بات کریں تو یہ 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اسپیس میں سفر کرتی ہے۔اتنی رفتار ہونے کے باوجود بھی ستارے ہماری ذمین سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہیں اور نوری سال کا مطلب  آپ نیچے دئے گئے لنک پر کلک کرکے حساب لگا سکتے ہیں۔

 

اس کا مطلب صاف سیدھا اور کھرا ہے کہ جو ستارہ آپ کو آج نظر آرہا ہے اس بات کا قوی احتمال  ہے کہ اس وقت وہ ا پنی میعاد مکمل کرکے بلیک ہول میں تبدیل ہوگیا ہومگر آپ اس اوریجنل ستارے سے نکلی ہوئی روشنی کو جو ہزاروں نوری سال پہلے اسپیس میں سفر کر کے آپ تک آج پہنچی ہے اس کی مجازی تصویر کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ ایک ایسے ستارے کا مشاہدہ جو آپ کے کائناتی  اوقات کے مطابق فی الحال اپنا وجود نہیں رکھتا۔


تبصرہ 

جیمس ویب ٹیلی اسکوپ سے لی گئی حالیہ تصویروں کا خاکہ جس طرح سے سامنے آیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مگر کم سے کم فزکس کے طالب علم کو اس پر سوال اٹھانا چاہئیے کہ جو تصویریں جیمس ویب ٹیلی اسکوپ نے دنیا کو دکھائیں ہیں وہ کس اعتبار سے اپنی نوعیت میں اصلی دنیا کی حقیقت کو عیاں کرتی ہے جبکہ ہماری مادی کائنات کے ساتھ قدرت کی طرف سے ڈارک میٹر کا اپنا بھاری بھر کم وجود ہے جو لازمی طور پر اسپیس کے فیبرک کو اپنے وزن سے موڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


آسٹریلین ڈیٹا سینٹر کے چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر تھیمیا نانایاکارا نے نیو اٹلس کو بتایا۔ "کیونکہ کہکشاؤں  کا اجتماعی ماس بہت بڑا ہے اسلئے  یہ اپنے  ارد گرد خلا میں ایک موڑ پیدا کرے گا – پس جب کسی پس منظر کی کہکشاں سے روشنی اس علاقے سے گزرتی ہے تو اسے جس راستے پر سفر کرنا ہوتا ہے وہ خمیدہ ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پس منظر کی کہکشاؤں کی لمبی تصویریں بنتی ہیں۔ 

یاد رکھئیے اگر ڈارک میٹر کا وجود اس کائنات میں موجود ہے اور واقعی موجود ہے تو ہم کبھی بھی روشنی کو بیک ٹریس کر کے اس کی مرادِ اصلی تک نہیں پہنچ پائینگے جیسا کہ عام تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم کڑوڑوں سال پیچھے جاکر بگ بینگ والے نقطے کو  سمجھیں گے۔


میرے اس تبصرے کو سمجھنے کیلئے آپ کو ایک مرتبہ پھر سے  اس کالم کا پہلا پیراگراف پڑھنا ہوگا کہ "میری گلی میں کون آیا تھا اور اس نے کیا کیا تھا؟۔"

 

جب سب کچھ اس قدرت کا  دیا ہے تو  انسان کو اصل اور نقل سمجھنے کیلئے اس کی  عقل کو  آزاد کیوں چھوڑا گیا؟ قدرت کسی کے خیال کا بہت خوبصورت نام ہے  مگر میں معافی چاہونگا یہ کہتے ہوئے کہ ہم قدرت کے اس راز کو کبھی  نہیں سمجھ پائینگے، کبھی بھی نہیں۔


اس کالم کے مطابق انگریزی کالم کا اردو ترجمہ پڑھنے کیلئے کلک کیجئیے۔

Reactions

Post a Comment

0 Comments

Ads

NASA Zero Gravity

خلائی سفر کے دوران خلابازوں کے جسموں کی حفاظت کے لیے ناسا کی طرف سے تیار کردہ صفر کشش ثقل کی نیند کی پوزیشن، پٹھوں اور جوڑوں کا درد، خرراٹی، تیزابی ریفلکس، خراب گردش، اور ویریکوز رگوں سمیت متعدد صحت کے مسائل میں مدد کر سکتی ہے۔ اس پوزیشن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پیٹھ کے بل لیٹ جائیں اور اپنے سر اور پاؤں دونوں کو دل کی سطح سے قدرے اوپر اٹھائیں۔ اس پوزیشن کے فوائد میں نیند کے معیار میں بہتری، خراٹے اور نیند کی کمی، ایسڈ ریفلوکس اور سینے کی جلن سے نجات، بہتر ہاضمہ اور گردش، اور ویریکوز رگوں اور ورم کی علامات میں کمی شامل ہیں۔ یہ پوزیشن ان لوگوں کے لیے تجویز کی جاتی ہے جو بے خوابی یا نیند میں خلل کا شکار ہیں، کیونکہ یہ صحت مند نیند کو آرام دینے اور فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے۔

Philosophy of Universe

یہ سوال کہ آیا ہماری کائنات ایک سمو لیشن ہے یا دھوکہ ، صدیوں سے فلسفیوں، سائنسدانوں اور ماہرینِ الہٰیات کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔ اگرچہ کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، لیکن اس خیال کے حق میں اور اس کے خلاف کئی دلائل موجود ہیں کہ ہماری حقیقت وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے۔سمو لیشن کے نظریہ کے اہم دلائل میں سے ایک ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی ہے، خاص طور پر مجازی حقیقت کے میدان میں۔ خیال یہ ہے کہ اگر ہم حقیقت کے انتہائی عمیق نقالی تخلیق کر سکتے ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ ہماری اپنی حقیقت بھی ایک زیادہ ترقی یافتہ تہذیب یا ہستی کی تخلیق کردہ نقل ہو۔تاہم، اس نظریہ کے خلاف کئی جوابی دلائل موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، فزکس کے قوانین اور ہماری کائنات کی پیچیدہ نوعیت یہ بتاتی ہے کہ یہ کوئی سادہ سی شکل نہیں ہے۔ مزید برآں، اگر ہماری کائنات نقلی ہوتی، تو اس کی تخلیق کے لیے کوئی مقصد ہونا چاہیے تھا، جس کا فی الحال ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔اسی طرح یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک وہم یا دھوکہ ہے بھی فلسفیانہ اور روحانی بحث کا موضوع ہے۔ بدھ مت میں مایا کا تصور بتاتا ہے کہ ہماری حقیقت ذہن کی طرف سے پیدا کردہ ایک وہم ہے، لیکن یہ خیال سائنسی ثبوت کے بجائے موضوعی تجربے پر مبنی ہے۔آخر میں، جب کہ یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک سمولیشن ہے ی یا پھر دھوکہ ، فی الحال کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ ہماری حقیقت کی نوعیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے، اور یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی دنیا کے بارے میں اپنے تجربات اور تفہیم کو تلاش کرے اور اس کی بہتر طور پر تشریح کرے۔ ۔

 


How to control Old age

بڑھاپا ایک قدرتی عمل ہے جو ابتدائی جوانی میں شروع ہوتا ہے اور درمیانی عمر کے آس پاس تیزی سے بڑھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ جینیات، طرز زندگی اور ماحول جیسے عوامل عمر بڑھنے کی شرح کو متاثر کرتے ہیں۔ درمیانی عمر، عام طور پر 45 اور 65 کے درمیان، ہارمونل تبدیلیوں، پٹھوں اور ہڈیوں کے ساتھ گوست کی کمی، اور آکسیڈیٹیو تناؤ میں اضافے کی وجہ سے ہوتی ہے۔باقاعدہ ورزش، خاص طور پر مزاحمتی تربیت جیسے ویٹ لفٹنگ، پٹھوں اور ہڈیوں کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے، زوال کو روکنے، اور گرنے اور فریکچر کے خطرے کو کم کرکے عمر بڑھنے کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ورزش کرنے سے ٹیسٹوسٹیرون اور گروتھ ہارمون جیسے ہارمونز بھی بڑھتے ہیں، جو عمر کے ساتھ کم ہوتے ہیں اور پٹھوں کے نقصان میں معاون ہوتے ہیں۔ ایروبک ورزش، یوگا، اور صحت مند غذا بھی قلبی صحت کو بہتر بنا کر، تناؤ کو کم کر کے، اور مجموعی صحت کو فروغ دے کر بڑھاپے کو کم کر سکتی ہے۔ مناسب نیند اور ماحولیاتی زہریلے مادوں کو کم سے کم کرنا صحت مند عمر بڑھنے میں مزید مدد کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ، اگرچہ عمر بڑھنے کی رفتار درمیانی عمر کے آس پاس ہوتی ہے، لیکن مختلف حکمت عملی جیسے کہ ورزش، صحت مند غذا، نیند، اور زہریلے مواد میں کمی عمر بڑھنے کے عمل کو سست کر سکتی ہے اور زندگی بھر بہترین صحت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔