جب
میں چھوٹا تھا تو ایک جادوگر ہماری گلی میں آیا تھااور اس نے مختلف سکے
اچھال کر بہت سے کرتب ایسے دکھائے تھے جسے میری ظاہری آنکھ یقین نہیں کر پائی ۔
سوال یہ نہیں کہ وہاں کھڑے کسی بھی شخص کو اس کرتب کا پس منظر جاننے میں دلچسپی
نہیں۔بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ ایسی کیا چیز تھی جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم سے
اوجھل تھی؟
اصل
میں ہمیں کوئی بھی چیز جب دکھائی دیتی ہے جب ہماری آنکھوں کےریسیپٹرز اسے قبول
کرتے ہیں۔ہماری آنکھیں سیدھی روشنی کا واپس تعاقب کرکے اس کے اصل تک پہنچ کر اس
چیز کا اندازہ لگاتی ہیں کہ یہ چیز کیسی
دکھتی ہے۔اگر ہم اس واپس جانے والی روشنی کو ہی موڑ دیں یا جس میڈیم سے
روشنی سفر کررہی ہو اس میڈیم ہی کو بدل دیں تو ہماری آنکھیں کبھی بھی
یہ نہیں سمجھ پائینگی کہ ان کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ ایک جادوگر ہماری
اس نیچرل پریکٹس سے ٹرک کرتا ہے اور اور ہمارے ادراک کو کنفیوز کرتا ہے۔ اور اسی
اثناء میں جادوگر آپ کو جو دکھانا چاہتا ہے وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ فزکس میں
ٹائم اینڈ اسپیس کے گریویٹیشنل فیبرک میں ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ جس ستارے
کو ہم اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں بھاری ستارے اسپیس میں
روشنی کو کئی بار موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے جو ستارہ ہمیں جہاں نظر آتا ہے وہ اصل
میں اس جگہ کبھی ہوتا ہی نہیں ہے۔اس چیز کا اندازہ سائینسدانوں کو ہبل
ٹیلی اسکوپ کے ذریعے پتا چلا۔اس کے بڑے سائز کے بدولت خلاء میں سب سے دور روشنی کو
دیکھا جاسکتا ہےجس کی وجہ سے سائنسدانوں کو خلا کے بارے میں ذیادہ معلومات ملیں
ہیں مگرجیمس ویب ٹیلی اسکوپ کے بعد اب ہم سچائی کو مزید قریب سے
دیکھ پائینگے چاہے دھندلی ہی سہی۔
تعارف
گریویٹیشنل
لینسنگ ہماری قدرت کا سب سے اہم مظہر ہے اور میری ذاتی رائے یہ
ہے کہ قدرت کے اس عظیم مظہر کو سمجھنے کے بعد آپ کا ذاویہ اور نکتہ نظر اس
کائنات کے بارے میں یکسر بدل جائیگا۔ کبھی آپ سوچیں گے کہ جو کچھ ہماری آنکھ
بظاہر دیکھ رہی ہے کیا یہ محض ایک
دھوکہ ہے؟یا قدرت کی طرف سے کوئی جادو ہے؟ یا شاید کچھ بھی اصل نہیں ہے اگر ایسا
ہے تو اصل اور نقل کو واضع ہونا چاہئیے جو نہیں ہے ۔ جانوروں میں لینسنگ کا
الگ مظہر ہوتا ہے کچھ جانورں کو دوسرے جانور بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر کچھ
جانوروں کو بڑے اور بہت بڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی طرح حشرات الارض کا معاملہ ہے
ایک ریسرچ کے مطابق دنیا میں سانپ کے 2700 اقسام ہیں جن کا الگ الگ دیکھنے کا لینس
ہے کچھ سانپ رنگوں کا امتزاج نہیں سمجھتے۔ مگر کچھ اس حد تک سمجھتے ہیں کہ
وہ جب چاہتے ہیں چیزوں کو اپنے حساب سے رنگتے ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ تے ہیں۔
مثلا" ایک سمندری سانپ اپنی آنکھوں کے انفرا ریڈ کا استعمال کرکے یہ پتا
لگالیتا ہے کہ کس ذمین کے کس حصے میں اس کے شکاری گھات لگا کر بیٹھے ہیں ۔کچھ
سانپوں کو دیوار کے پیچھے کا پتا لگ جاتا ہےکہ اس پار کیا رکھا ہے اسی طرح جب آپ
باری باری اس دنیا کی 72000 مخلوقات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرینگے تو
ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہر چیز ہی دھوکہ لگےکیونکہ آپ لینسنگ کی پرفیکٹ
تعریف کرنے کے قابل ہی نہیں رہینگے
لینسنگ
کا میکانزم
فی
الحال ہمیں انسانوں کی لینسنگ کا میکانزم سمجھنا ہے کہ کائناتی اسپیس میں
چیزیں ہمیں کیسی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کو سمجھنے سے پہلے آپ کو یہ سمجھنا
ہوگا کہ:
1۔ ہماری آنکھیں چیزوں کو کیسے دیکھتی ہیں ؟ اور
2۔ لائٹ بینڈ کیسے ہوتی ہے؟
تو
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ہم چیزوں کو جب ہی دیکھ پاتے ہیں جب روشنی ہماری آنکھوں
سے ٹکراتی ہے۔ اور روشنی اپنی فطرت میں خطِ مستقیم پرسفر کرتی ہے۔ اس طرح ہماری
آنکھوں پر پڑنے والے روشنی کو ہماری آنکھیں اس روشنی کا واپس تعاقب کرتی ہیں جس کے نتیجے میں ہم کسی چیزکا مشاہدہ کر پاتے
ہیں۔
![]() |
Actual and Virtual Image |
یعنی
جس راستے سے روشنی آئی ہے بعنہ اسی راستے کو فولو کرتے ہوئے آنکھیں اس کا امیج بناتی ہیں۔ اور
ہماری
لینسنگ کی اسی پراپرٹی کی وجہ سے ہماری
آنکھوں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر کسی مادہ سے روشنی کا اخراج ہوتا ہے
اور ہماری آنکھوں تک اس کی ریز پہنچیں اور
وہی جسم ہمیں دکھ رہا ہے۔یعنی ہماری آنکھیں اس کو آسانی سے بیک ٹریس کر پا رہی
ہیں۔
لیکن اگر ہم اس میں ایک
چالاکی کریں کہ جب ہماری آنکھیں اس روشنی کو بیک ٹریس کر رہی ہوں تو
ہم اس لائٹ کی رے کو ہی موڑ دیں تو اس کے نتیجے میں ہماری آنکھیں مکمل طور پر
دھوکہ کھا جائینگی اور لائٹ کی رے بینڈ ہونے کے باوجود بھی ہماری آنکھیں اس روشنی
کا خطِ مستقیم میں تعاقب کرینگی اور اس سے حاصل ہونے والا امیج اصل نہیں
بلکہ مجازی امیج دکھے گا۔کیونکہ ہماری آنکھیں یہ کبھی نہیں مان سکتیں کہ لائٹ بینڈ
ہورہی ہے وہ اپنا بیک ٹریس سیدھی لائن مین جاری رکھتی ہے۔
اس
کو اور آسان مثال سے سمجھتےہیں۔ مان لیجئے کہ اس جسم کے سامنے آپ نے لینس رکھ دیا۔
اور لینس روشنی کو بینڈ
کرتا ہے۔جیسا کہ اوپر تصویر میں دکھا یا گیا ہے۔
اس
طرح لینس روشنی کو بینڈ کردیگااور ہمیں اصل تصویر کی جگہ مجازی تصویر
دکھائی دیگی جو یا توچھوٹی دکھائی دیگی یا پھر ابھری ہوئی جو
منحصر کریگا کہ میڈیم کے درمیان لینس کس نیچر کا ہے ۔
اسی
طرح ریفریکشن کے مضمون میں آپ نے ریئل اور اپیرینٹ ڈیپتھ کے بارے میں مطالعہ کیا
ہوگا ۔ اس میں پانی کے اندر ایک مادہ رکھا
ہوا ہوتا ہے اور جب اس آبجیکٹ کو پانی کے باہر سے دیکھتے ہیں تووہ آبجیکٹ ہم کو اس
کی اصلی پوزیشن پر نہیں دکھتا بلکہ اپنی اصلی پوزیشن سے تھوڑا اوپر دکھتا ہے۔
اس
میں جب آپ غور کرینگے تو پتا چلے گا کہ آبجیکٹ نا صرف اپنی اصلی پوزیشن پر نہیں ہے
بلکہ اس کا جسم بھی پھیلا ہواسا دکھائی دے رہاہے۔
ریفریکشن
اور ریفلیکشن کے ان سادہ اصولوں کو اپنے ذہن میں رکھئے گا کیونکہ ابھی ہم
گریویٹیشنل لینسنگ کو سمجھنے والے ہیں کہ اسپیس میں کسی ستارے کو ہم کیسے
دیکھ پاتے ہیں۔
GRAVITATIONAL LENSING
کہکشاؤں
سے نکلنے والی روشنی کو بھی ہماری آنکھ ویسے ہی دیکھتی ہے جیسے ہم عام ذندگی میں
مشاہدہ کرتے ہیں۔اگر کہکشاؤں کی روشنی ہم تک اسپیس میں بینڈنگ کی وجہ سے پہنچ رہی
ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اسپیس میں ہم جس ستارے کا مشاہدہ کر رہے ہیں
نا ہی وہ اپنی اصل پوزیشن میں ہے اور نا ہی ہم اس کا رئیل امیج دیکھ رہے ہیں بلکہ
کسی دوسرے بڑے ستارے نے اسپیس کو اپنی طرف فولڈ کردیا جس سے اسپیس کا میڈیم
بدل گیا اور ستارے سے ڈائیریکٹ پہنچنے والی روشنی کو اب ہم دوسرے ستارے کی بدولت
اس کا مجازی امیج فوکس کر رہے ہیں۔اس کی موٹی مثال کان ویکس لینس ہے جس سے روشنی
تیزی کیساتھ بینڈ ہوجاتی ہے۔
اس
مضمون کو مزید اچھے سے سمجھنے کیلئے آپ کو لینسنگ کا تصور کلئیر کرنا ہوگا خاص کر؛
1۔
کانویکس لینس
2۔
کانکیو لینس
3۔ میگنی
فائینگ لینس
![]() |
کیا سچ بھی سچ ہے ؟ ایک علمی کالم |
اوپر
بتائے گئے تینوں لینسنگ میں روشنی کی رفتار کا ہی عمل دخل ہوتا ہے۔ کسی میں آبجیکٹ
چھوٹا دکھتا ہے کسی میں دور اور قریب دکھتا ہے کسی میں پھولا ہوا دکھتا ہے۔بعینہ
اسی طرح گریوی ٹیشنل لینسنگ ہے کہ اسپیس کو کتنے بھاری ستاروں نے کتنا فولڈ کیا
ہے۔کیونکہ آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق اسپیس میں اسپیس کی فولڈنگ دراصل
ستاروں کے وزن اور اس کی کمیت کےبراہِ راست تناسب سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ نیچے تصویر میں دکھایا گیا ہے۔
روشنی
کو بینڈ کرنے کے دو طریقے ہیں۔
1۔ یا تو میڈیم کو بدل دیں
2۔ یا جس میڈیم میں روشنی چل رہی ہے اسی کا شیپ بدل دیں یا موڑ
دیں۔
سورج
سے ہماری ذمین کی طرف اسپیس کے میڈیم سے سفر کرتے ہوئے لائٹ آرہی ہے
۔اسپیس ہماری کائنات میں ایک چادر کی طرح ویکیوم میں پھیلی ہوئی ہے۔جو بڑے بڑے
ستاروں کےوذن سے بینڈ ہوجاتی ہے۔
![]() |
Bending Space |
عمومی
نظریہ اضافیت نے اسے کافی تفصیل سے ذکر کیا ہےکہ اسپیس بھاری جسم والے ستاروں سے
کیوں بینڈ ہوتا ہے۔
مان
لیجئے کہ سورج کے پیچھے کوئی ایسا ستارہ موجود ہے جسے ہم اپنی ذمین سے نہیں
دیکھ پارہے مگر چونکہ اس ستارے اور ہماری
ذمین کے درمیان سورج جیسا بھاری ستارہ موجود ہے اسلئے سورج سے پیدا ہونے
والی اسپیس بینڈنگ اس سورج سے نکلنے والی روشنی کو بینڈ کردیگی جس کی وجہ سے ہم اس
ستارے کو جو سورج کے عقب میں ہے صحیح .پوزیشن
کا پتا نہیں لگا پائینگے
![]() |
Gravitational Lansing |
سن
1919 میں ایڈنٹنگ نے اس بات کو ثابت کیا کہ آئنسٹائن کاعمومی نظریہ واقعی کام کرتا
ہے اور اسپیس میں مادے سے جھکاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔
تو
چونکہ ہماری آنکھیں روشنی کو بیک ٹریس کرکے مادے کا مشاہدہ کرتی ہیں اس لئے وہ
ستارہ جو سورج کے عقب میں ہے ہمیں کبھی بھی اپنی اصلی پوزیشن میں نہیں دکھے
گا۔یہاں سورج لینسنگ کا کردار ادا کرتے ہوئے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
اسے
کہتے ہیں gravitational
Lansing جس کے ہوتے ہوئے انسان کبھی بھی کسی بھی کہکشاں
کو اس کی اصلی پوزیشن پر مشاہدہ نہیں کرسکتا۔اسی طرح اگر ہم روشنی کی رفتار کی بات
کریں تو یہ 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اسپیس میں سفر کرتی ہے۔اتنی رفتار
ہونے کے باوجود بھی ستارے ہماری ذمین سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہیں اور نوری
سال کا مطلب آپ نیچے دئے گئے لنک پر کلک کرکے حساب لگا سکتے ہیں۔
اس کا مطلب صاف سیدھا اور کھرا ہے کہ جو ستارہ آپ کو آج نظر آرہا ہے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ اس وقت وہ ا پنی میعاد مکمل کرکے بلیک ہول میں تبدیل ہوگیا ہومگر آپ اس اوریجنل ستارے سے نکلی ہوئی روشنی کو جو ہزاروں نوری سال پہلے اسپیس میں سفر کر کے آپ تک آج پہنچی ہے اس کی مجازی تصویر کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ ایک ایسے ستارے کا مشاہدہ جو آپ کے کائناتی اوقات کے مطابق فی الحال اپنا وجود نہیں رکھتا۔
تبصرہ
جیمس
ویب ٹیلی اسکوپ سے لی گئی حالیہ تصویروں کا خاکہ جس طرح سے سامنے آیا ہے وہ کسی سے
ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مگر کم سے کم فزکس کے طالب علم کو اس پر سوال اٹھانا چاہئیے کہ
جو تصویریں جیمس ویب ٹیلی اسکوپ نے دنیا کو دکھائیں ہیں وہ کس اعتبار سے اپنی
نوعیت میں اصلی دنیا کی حقیقت کو عیاں کرتی ہے جبکہ ہماری مادی کائنات کے ساتھ
قدرت کی طرف سے ڈارک میٹر کا اپنا بھاری بھر کم وجود ہے جو لازمی طور پر اسپیس کے
فیبرک کو اپنے وزن سے موڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یاد
رکھئیے اگر ڈارک میٹر کا وجود اس کائنات میں موجود ہے اور واقعی موجود ہے تو ہم
کبھی بھی روشنی کو بیک ٹریس کر کے اس کی مرادِ اصلی تک نہیں پہنچ پائینگے جیسا کہ
عام تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم کڑوڑوں سال پیچھے جاکر بگ بینگ والے نقطے کو سمجھیں گے۔
میرے
اس تبصرے کو سمجھنے کیلئے آپ کو ایک مرتبہ پھر سے اس کالم کا پہلا پیراگراف پڑھنا ہوگا کہ
"میری گلی میں کون آیا تھا اور اس نے کیا کیا تھا؟۔"
جب سب کچھ اس قدرت کا دیا ہے تو انسان کو اصل اور نقل سمجھنے کیلئے اس کی عقل کو آزاد کیوں چھوڑا گیا؟ قدرت کسی کے خیال کا بہت خوبصورت نام ہے مگر میں معافی چاہونگا یہ کہتے ہوئے کہ ہم قدرت کے اس راز کو کبھی نہیں سمجھ پائینگے، کبھی بھی نہیں۔
اس کالم کے مطابق انگریزی کالم کا اردو ترجمہ پڑھنے کیلئے کلک کیجئیے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments