Title: How to Evaluate Currency |
سب سے پہلے ہمیں یہ
جاننا ہوگا کہ مالیاتی دنیا میں ایک کرنسی کی قدر دوسری کرنسی کے مقابلے
کیسے گرتی ہے۔ یہ خالصتا" ایک اکیڈمک مگر حقیقتا" ایک میکرو اکنامی ورلڈ کا سوال ہے۔جو موجودہ دور کے بزنس اینڈ
ایڈمنسٹریشن طالب علم کا عام موضوع رہتا
ہے۔اس مضمون میں ہم ترکی کی موجودہ کرنسی کی قدر
کے بارے میں بھی مطالعہ کرینگے کہ وہ کون سے ممکنہ عوامل ہوسکتے ہیں جنھونے
ترکی کی کرنسی کو ایک سال کے اندر اندر 45
فیصد تک فرسودہ کردیا۔
کرنسی کی قدر میں کمی
کسے کہتےہے؟
کرنسی کی قدر میں کمی
یا قدر میں فرسودگی سے مراد کرنسی کی شرح مبادلہ میں کمی ہے، جیسا کہ فلوٹنگ ایکسچینج
ریٹ سسٹم میں رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس کمی کے اثرات کا انحصار نہ صرف کمی کی مقدار پر
ہوتا ہے بلکہ کرنسی کی گراوٹ کے اثرات پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے ممالک کی نسبت
کسی ملک کی شرح مبادلہ سے ماپا جاتا ہے۔مثال کے طور پر آج کی تاریخ 6 دسمبر
2021 میں اگر ہمیں ایک ڈالر خریدنا پڑے تو وہ ہمیں پاکستانی 176.20 روپیہ تک کا
ملے گا اسے ایکسچینج ریٹ کہتے ہیں۔اور آج سے بارہ سال پہلے اگر ایک ڈالر خریدنا
پڑتا تھا تو وہ 76.20 روپے تک مل جاتا
تھا۔اس طرح آج کے ریٹ کے مقابلے میں بارہ سال پہلے کا روپیہ ذیادہ مستحکم تھا۔جس
کو مندرجہ ذیل حسابات سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
2021،آج کا
ریٹ 176.20
(2008، کا کرنسی ریٹ 76.20)
منفی 100 روپیہ
Exchange Rate Formula |
کرنسی کی قدر میں
تبدیلی کے عوامل
کرنسی کی قدر میں کمی
معاشی بنیادوں، شرح سود میں فرق، سیاسی عدم استحکام، یا سرمایہ کاروں میں خطرے سے بچنے
جیسے عوامل کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔فرسودگی ایک کرنسی کی بیرونی قدر میں دوسری کرنسی
کے مقابلے میں گرنے کو کہتےہیں ۔
کرنسی کی قدر میں کمی
کے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں۔ ان میں اقتصادی و بنیادی ، سیاسی عدم استحکام،
شرح سود میں فرق اور سرمایہ کاروں کے خطرے سے بچنا شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، کسی ملک
کی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہو سکتی ہے اگر اس کی اقتصادی بنیادیں کمزور ہوں, کسی ملک کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بلند افراط زر کا سامنا ہو سکتا ہے، جن
میں سے ہر ایک عوامل کرنسی کی قدر میں کمی
کا باعث بن سکتا ہے یا اس میں تیزی بھی لا
سکتا ہے۔مزید یہ کہ بڑھتی ہوئی افراط زر برآمد شدہ مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ
کرتی ہے۔ یہ صورتِ حال کسی ملک کی برآمدات کو عالمی منڈیوں میں کم مسابقتی بنا دیتا ہے۔
بدلے میں، تجارتی خسارہ بڑھے گا اور کسی ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی آئے گی۔
اس کے علاوہ، جب افراط زر زیادہ ہوتو اگر فیڈرل ریزرو افراط زر کو روکنے کے لیے شرح سود کا استعمال کرتا ہے، تو کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں، سود کی شرح میں کمی کے ساتھ، اربوں ڈالر ان سرمایہ کاری سے منتقل ہو سکتے ہیں جو زیادہ پیداوار والے افراد کو کم شرح سود ادا کرتے ہیں۔
Hoe Exchange Rate Works |
لیرا کیس اسٹڈی کے آئینے میں
2012 تک ترکی مالیاتی طور پر ایک مستحکم ملک تھا۔مگر 2012 ہی میں اپنے فورین
ریزرو کا قریبا" 50 فیصد حصہ پانچ سے
سات سال کی انویسٹمینٹ پلاننگ کرتے ہوئے رئیل اسٹیٹ پر اس قیاس پر لگایا کہ رئیل
اسٹیٹ کمرشل ورلڈ کا وہ سکہ ہے جو کبھی
فرسودہ نہیں ہوتا اور یہ بات ایک طرح سے صحیح بھی لگتی تھی۔ مگر اس شخص کے بارے میں آپ کیا کہیں
گے جو یہ سوچ کر اپنے گھر کی ساری جمع پونجی بینک میں جمع کرانے کیلئے گھر سے نکلا
ہو کہ گھر میں پڑا پیسہ کچھ بڑھ نہیں رہا تو چلو اسے کسی ایسی جگہ لگاتے ہیں جہاں
سے کچھ آمدنی ہوتی رہے اور بینک پہنچنے سے پہلے ہی سارا مال کسی بھی طریقے سے ضائع
ہوجائے؟
کسی بھی ملک کا فورین
ریزو اس کی کرنسی کو گرنے میں مانع رکھتا
ہےیوں سمجھ لیجئے کہ ریزرو ایک کرنسی ڈھال ہے جو اس کی قدر کو فوری گراوٹ کے
جھٹکوں سے محفوظ رکھتا ہے۔مگر اگر یہی ریزرو کسی وجہ سے کم ہوجائیں تو بھی تین سے
چار سال تک کا عرصہ چائیے ہوتا ہے اس ملک کی کرنسی قدر کو نیچے آنے کا۔
2019 میں پینڈیمک کا
کس نے سوچا تھا؟ یہ محض اتفاق تھا یا قدرتی آفت ترکی کی معیشیت اس بات کیلئے پہلے
سے تیار نہیں تھی۔اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ سیینٹرل بینک نے شرح سود کو گھٹا
نا شروع کردیا ۔جس کا منفی اثر یہ پڑا کہ لوگوں نے اپنی سرمایہ کاری کو نکالنا
شروع کردیا ۔ان تمام صورتحال کے نتائج یہ نکلے کہ چیزوں کی طلب میں پہلے سے اضافہ
تھا اور مزید اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے ترکی کی امپورٹ میں اضافہ ہوگیا اور ریاست
میں مہنگائی کا طوفان سر اٹھانے لگا۔امپورٹ کے ذیادہ ہوجانے کی وجہ سے تجارت کا
توازن بگڑ گیا ۔ اور کرنسی کی قدر میں انتہائی تیزی کے ساتھ نا ختم نا ہونے والی گراوٹ کا دور شروع ہوگیا۔جس سے افراطِ ذر میں اضافہ ہوگیا
اور یوں عوام کی قوت خرید میں خاطر خوا کمی ہونے لگی۔ اور یوں ایک ہزار لیرا اجرت پر کام کرنے والا عام ملازم کی
قدر گھٹ کر صرف 550 لیرا رہ گئی۔ اس تمام صرتحال میں ہم نے معاشی طور پر دو عوامل کرتے ہوتجربہ کیا۔لیکن اس کے ردِ عمل میں ہم نے اس سے دو گنا منفی رجحان دیکھا جو ذیل میں
بیان کئے جارہے ہیں۔
عوامل
1۔ فورین ریزرو میں
ذبردست کمی
2۔ مرکزی بینک کی
جانب سے شرح سود میں کمی کے احکامات۔
نتائج
1۔ کرنسی کی قدر میں
گراوٹ جس سے عام انسان کی اجرت میں ذبردست جھٹکا۔
2۔ عوام کی قوتِ خرید
میں کمی۔
3۔ عوا م میں اشیاٰ
کی طلب میں اضافہ جس کی وجہ سے
4۔ درآمدات میں اضافہ
5۔ توازن تجارت کا
منفی رجحان۔
لیرا کی موجودہ صورتحال
لیرای کی موجودہ صورتحال کا ریفرنس میں نے ازراہِ مطالعہ دے دیا ہے۔ لیکن پھر بھی ایک عام بزنس اسٹوڈنٹ کی راہ نمائی کیلئے میں نے اسے مزید سہل انداز میں واضع کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیے۔
مرکزی بینک کی مانیٹری
پالیسی کی سمت پر بڑھتے ہوئے خدشات کے درمیان، ترکی کا لیرا امریکی ڈالر کے مقابلے
میں 13.7 سے زیادہ کمزور ہو گیا، جو گزشتہ جمعہ کو 13.9 کی ریکارڈ کم ترین سطح سے زیادہ
نہیں تھا۔ پالیسی ساز اس ماہ ایک بار پھر شرح سود میں کمی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
کیونکہ صدر طیب اردگان مہنگائی میں اضافے کے باوجود ترقی کو سہارا دینے کے لیے قرض
لینے کی لاگت کو کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے اعداد و شمار سے پتہ
چلتا ہے کہ ترکی کی صارفی قیمتوں میں افراط زر کی شرح نومبر میں توقع سے زیادہ بڑھ
کر 21.31 فیصد تک پہنچ گئی، جو کہ مرکزی بینک کے 5 فیصد کے وسط پوائنٹ ہدف سے کافی
زیادہ ہے، جبکہ پروڈیوسر کی قیمتوں میں 19 سالوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔ صدر اردگان
کی اس شرح میں کمی کی پالیسی اور مرکزی بینک
کے ختم ہونے والے ذخائر پر تشویش کے بعد لیرا اس سال گرین بیک کے مقابلے میں اپنی قدر
کا تقریباً 46 فیصد کھو چکا ہے، جس نے پہلے ہی ریٹنگ ایجنسی فِچ کو ترکی کے منفی آؤٹ لک پر نظرثانی کرنے پر
آمادہ کیا ہے۔
Disclaimer
اس مضمون کا مواد صرف معلوماتی اور تعلیمی مقاصد کے لیے ہے۔ مصنف مواد کی درستگی، قابل اطلاق، فٹنس، یا مکمل ہونے کے حوالے سے کوئی نمائندگی یا وارنٹی نہیں دیتا ہے۔ مصنف اس کے ذریعے اس مضمون (بلاگ کے مشمولات) کے کسی بھی استعمال سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر پیدا ہونے والے کسی بھی براہ راست، بالواسطہ، مضمر، تعزیری، خصوصی، واقعاتی، یا دیگر نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے لیے کسی بھی اور تمام ذمہ داری کو مسترد کرتا ہے، جو کہ فراہم کیا گیا ہے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments