: ایک اہم پیغام خیر الناس من ینفع الناس۔ تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو بہترین انسان بنانا چاہتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جائے اور ان میں خیر بانٹنا شروع کردے۔ اور سب سے عمدہ چیز جو بانٹی جا سکتی ہے اور جس کے ذریعہ اوروں کو نفع پہنچایا جاسکتا ہے، وہ علم سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے جو پست کو بالا کرتی ہے۔ انسان کو فرشتوں پر جو شرف بخشا گیا اس کا بظاہر سبب علم کو ہی بنایا گیا۔ علم نافع کے حصول اور پھر اس پر مخلصانہ عمل کے ذریعہ سے ہی انسان اپنی راحتوں میں اضافہ اور اپنی سلامتی کو دوام بخش سکتا ہے، اور اپنی کھوئی ہوئی جنت کو دوبارہ سے پا سکتا ہے۔ یہ ہے وہ مقصد جس کے تحت یہ علمی پورٹل بنایا گیا ہے۔ کہ اس پورٹل کے توسط سے علم نافع کی ترویج کی داغ بیل ڈالی جائے۔ اس میں علم کی کسی خاص شاخ کی تخصیص نہیں بلکہ علم خواہ دینی ہو، خواہ سائنسی، خواہ عملی ہو خواہ نظری، اگر اس میں انسانیت کی فوز و فلاح ہے تو اس کو عام اور رائج کرنے میں کاوش کی جائے۔بے جا بحث، مسالکانہ کشاکش اور الحادی فکر کی ترویج کی بہرحال اس پورٹل پر کوئی گنجائش نہیں۔ ایسی ہر کوشش کی یہاں حوصلہ شکنی ہوگی۔مستقل قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ پورٹل کے علمی مقاصد کی تکمیل میں شامل ہوں اور اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو اور دوسروں کے علم و تجربہ سے خود کو مستفید کریں۔ اس کے لئیے جو حضرات بھی اپنے کالم کو اردو ورلڈ میں شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ اپنا کالم ہمیں ای میل کرسکتا ہے۔ ہمارے ای میل ایڈریس کے لئیے اوپررابطہ پر کلک کرکے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ جزاک اللہ۔ واسّلام
  مسنون تاریخوں کی افادیت اور حکمت خدا کی شان اور اسکی حکمت انسان پر کتنی مہربان ہے۔ انسان کے خون اور اس کے باقی اخلاط کا چاند کے ساتھ گہرا تعلق ہے جوں جوں چاند کی روشنی بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کا خون اور اس کے اغلاط جوش مارتے ہیں اور ابھرتے ہیں اسی لئے ہماری شریعت میں چاند کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کےحجامہ کو بہت نافع قرار دیا ہے۔ ان تاریخوں میں خون صفراء، سوداء بلغم اور دیگر اخلاط جوش میں ہوتے ہیں تب حجامہ کا مبارک عمل خون اور دیگر اخلاط میں سے بیماریوں کو چھانٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے پاس انسانی فطرت کے حوالے سے مکمل ہم آہنگ مسنون علاج موجود ہے جو کہ حجامہ کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے اور مسلمانوں کی تاریخ اور مہینہ بھی قمری ہے... اور قمری مہینے کی تاریخوں کا انسان کے جسم اور خون کے اتار چڑھاؤ سے گہرا تعلق ہے۔ حجامہ وسوسہ اور وہم دونوں روحانی امراض کا بہترین علاج کرتا ہے اس کے علاوہ الحمد للہ فالج سے لے کر کینسر‘ تک کے مریضوں کو اللہ تعالی نے حجامہ سے شفاء بخشی ہے۔

Napoleon hill | Think and Grow Rich in Urdu | Review and Summary book | 13 Fundamental Rules for Success in life | Best summary of the book | Urdu

Think and Grow Rich in Urdu
Think and Grow Rich in Urdu


مصنف کا تعارف:

دوسری جنگِ عظیم سے دو سال قبل 1937 میں اس کتاب کو "نپولین ہل" نے تحریر کیا ۔یہ کتاب آج بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی آج سے 85 سال پہلے تھی۔  نپولین پیشہ کے اعتبار سے نا صرف ایک ذہین  مصنف تھے بلکہ  ایک جرنلسٹ بھی تھے۔ خوش قسمتی سے انھیں اس وقت کے مشہور امیر ترین انسان "انڈریو کارنگی" کا نٹرویو لینے کا موقع ملا ۔ انٹرویو کے دوران اینڈریو نے نپولین کے سامنے ایک آفر رکھااور کہا کہ دنیا کے لوگ اپنی اپنی جگہ محنت کر رہے ہیں مگر کامیابی کسی کسی کو ہی مل پاتی ہے۔میں نے اپنے تجربات سے سیکھا ہے کہ قدرت سب کو برابر چانس دیتی ہے پھر بھی لوگ اپنی ذندگیوں میں اپنے  پیسے کمانے کے ہدف کو پورا نہیں کر پاتے "نپولین" میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی ذہانت اور فطانت کو برائے کار لاتے ہوئے ایک ایسی کتاب مرتب کرو جس میں دنیا کے کامیاب اور امیر ترین انسان کی کامیابی کے راز تحریر ہوں ۔ میں تمہیں اس کے بدلے دنیا کے امیر ترین انسانوں سے ملاقات کراؤنگا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تمام اخراجات کو ازخود پورا کرونگا۔تو کیا تم ایسی کوئی کتاب مرتب کرنا پسندکروگے؟

نپولین نے تھوڑی دیر توقف کیا اور پھر رضامندی کیلئے سر ہلادیا۔نپولین نے جواب دینے میں وقت اس لئے لگایا کہ وہ جانتا تھا کہ اینڈریو کے جواب کیلئے اسے کافی محنت درکار ہوگی۔اور یوں نپولین نے 20 سال کی طویل ریسرچ کے عرصے میں دنیا کے بڑے اور کامیاب ترین 500 لوگوں کا انٹرویو کیا اور ایک  کمال کی کتاب مرتب کی۔ اس میں مشہور سائنسدان "سر تھامس ایڈیسن" اور مشہور بزنس مین " ہنری فورڈ" کے انٹرویو بھی شامل تھے۔

کتاب کے بارے میں:

اس کتاب کو پہلی مرتبہ 1937 میں رالسن سوسائٹی نے پبلش کیا تھا۔ اس کتاب میں کل ملا کر 15 مضامین مگر امیر بننے کے 13 اصولوں کو مفصل بیان کیا گیا  ہےجس کو آگے بیان کیا جارہا ہے۔یہ کتاب اس وقت انٹرنیٹ پر موجود ہے کوئی بھی جاکر اسے پڑھ سکتا ہے۔اور اپنی ذندگی کو ان اصولوں پر ٹیسٹ کرسکتا ہےجسے نپولین نے 20 سال ریسرچ کرنے کے بعد تحریر کے ذریعے منکشف کئے تھے۔یہ کتاب مکمل طور پر 253 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس آرٹیکل کے اختتام پر لنک کو شئیر کرادیا جائیگا۔

پوری کتاب کا ایک جملے میں خلاصہ:

اس ملک کے اب تک کے 500 سے زیادہ کامیاب ترین افراد نے ہل کو بتایا کہ ان کی سب سے بڑی کامیابی اس مقام سے صرف ایک قدم آگے تھی  جس پر شکست ان کا مقدر بن گیا  تھا۔

کتاب کے 13 اصول جو20 سال کی ریسرچ سے حاصل ہوئے

کتاب کے مطابق امیر بننے کے 13 اصول  اور ان کا مختصر جائزہ:

(Desire) 1۔خواہشات

نپولین کہتے ہیں کہ دنیا کی کسی بھی چیزکو حاصل کرنے کیلئے "خواہش " کا ہونا ضروری ہے۔کیونکہ یہ خواہش ہی ہوتی ہے جو انسان کو کسی بھی چیز کی طلب میں جدوجہد میں میں لگاتی ہے۔نپولین کہتے ہیں کہ انھونے جتنے بھی بڑے لوگوں کے انٹرویو کئے ان میں امیر ترین بننے کی شدید خواہش تھی۔وہ مزید کہتے ہیں کہ خواہشات کا ہونا لازمی ہے مگر یہ منطقی طور پر  کلئیر ہونا چاہئے کہ  خواہش کی مقدارکیا ہے؟ اس کیلئے آرتھر نے 6 مرحلے بتائے ہیں جو یہ ہیں؛

الف۔ سب سے پہلے یہ طے کریں کہ آپ کو کتنا پیسہ چاہئے۔یا آپ سالانہ کتنا کمانا چاہتے ہیں۔آپ کے ذہن میں یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ہم بہت سارہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔بلکہ آپ کے ذہن میں ایک مخصوص رقم ہونا چاہئے۔مثلا" آپ ہر سال 10 لاکھ روپے کمانا چاہتے ہیں۔یا 15 لاکھ کمانا چاہتے ہیں۔

ب۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ آپ اپنی طے کی ہوئی رقم کے لئے کیا قربانی دے سکتے ہیں یا آپ اپنی بری عادتوں کو چھوڑنے کیلئے تیار ہیں یا اور مزید کتنی محنت کر سکتے ہیں۔ جیسے نوکری کے ساتھ ساتھ آُ  پ کو پارٹ ٹائم جاب کرنا پڑجائے یا اتنے ہی گھنٹے کوئی بھی دوسرے جاب کرنا پڑ جائے تو کیا آپ کرینگے۔

ج۔   تیسرا مرحلہ یہ کہ آپ اس سال کا مہینہ اور تاریخ طے کریں کہ جس سال اور مہینے کی اس تاریخ تک آُ پ اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

د۔ چوتھا مرحلہ یہ کہ آپ نے جتنا پیسہ کمانے کیلئے سوچا ہے اس کیلئے اپنے لائحہ عمل کو واضع کریں ۔

ہ۔ پانچواں مرحلہ یہ ہے کہ اپنی ایکوریٹ تاریخ کے ساتھ اپنے تمام تر منصوبے کو کسی ڈائری میں تحریر کر لیجئے۔مثال کے طور پر

"میں پندرہ  اکتوبر دو ہزار چوبیس تک  یا اس سے پہلے پہلے  دس لاکھ روپیہ  کما رہا ہوں۔یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے میری یہ منصوبہ بندی ہے کہ میں اپنا کوئی انسٹی ٹیوٹ قائم کرونگا۔اور اسے تعلیمی اعتبار کے ساتھ ساتھ مالی طور پربھی کامیاب بناؤنگا۔اور ہر آٹھ مہینے کے وقفے سے چھوٹے انسٹی ٹیوٹ کا قیام کرتا  چلاجاؤنگا۔"  

 و۔ چھٹا اور آخری مرحلے میں نپولین کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا جوبھی پلان مرتب کیا ہے اسے دن میں دو بار بآواز بلند پڑھنا ہے۔اور سونے سے پہلے اس بات کا گہرائی سے  محاسبہ کریں کہ آپ نے اب تک پلان کا کتنا فیصد حصہ حاصل کرلیا ہے۔

(Faith) 2۔ یقین

اس میں آرتھر کہتے ہیں کہ آپ نے جو کچھ بھی پلان کو مرتب کیا ہے اور اس کی ترتیب میں  آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا ہے اس بات پر مکمل یقین ہونا چاہئے کہ آپ اپنے مقاصد کو بہر صورت حاصل کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔اگر آپ کو  اپنے بنائے ہوئے گولز کو حاصل کرنے کی اہلیت کا یہ گمان نہیں ہوگا تو آپ کبھی بھی اپنے ٹارگٹ کو حاصل نہیں کر پائینگے۔آتھر کہتے ہیں کہ انسانی سوچ میں اتنی پاور ہوتی ہے کہ اگر وہ گہرائی سے اپنے اوپر یقین کرلے تو وہ ہر صورت اپنے منصوبے کے دیرپا نتائج وقت سے پہلے ہی حاصل کرلیتا ہے۔ یاد رکھیں کہ نپولین ایک حوصلہ دینے  والے اسپیکر بھی تھے  اس لئے یہ اپنے دیرپا ریسرچ سے حاصل ہونے والے اصولوں کو کسی مذہبی فریضے کی طرح ادائیگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس میں انھونے "قانونِ کشش" کو واضع کیا ہے۔قانونِ کشش یہ کہتا ہے کہ جب آپ کسی چیز کو پورے دل  سے  اور پوری چاہت کی  دیوانگی سے  اتھاہ  گہرائیوں سے اپنی منزل کی طرف انتہائی مشقت کے باوجود بھی  رواں دواں ہوتے ہیں تو آپ اس کے نتیجے میں اس چیز کو اپنی جانب کشش ہوتا ہوا باقائدہ محسوس کرتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب آپ اس چیز کو حاصل کرلیتے ہیں۔اس قانون کو ایک آتھر اپنی ناول میں اس طرح بیان کرتے ہیں؛

“When you want something very badly, the whole universe will conspire to bring you closer to that thing”.

جب آپ کسی چیز کو دیوانگی سے چاہتے ہیں اور پورے دل سے چاہتے ہیں تو پوری کائنات آپ کو اس چیز سے ملانے کی سازش میں لگ جاتی ہے۔

 اس لئے آپ کو اس بات پر یقین ہونا چاہئےکہ آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔

(Autosuggestion) 3۔ خود کار تجویز

آتھر کہتے ہیں کہ انسانی دماغ کے دو حصے ہیں۔ ایک شعور کہلاتا ہے۔اور دوسرا لاشعور۔آپ اپنے اعتقاد کے پیغامات کو اپنے شعورکے ذریعے اپنے  لاشعورمیں اسٹور کرتے ہیں۔اس طرح ایک وقت آتا ہے جب آپ کا لاشعور آپ کو وہ بنا دیتا ہے   جو آپ اس میں اسٹور کررہے تھے۔مثال کے طور پر ایک ماں اپنے بچے کو اس کے ہر عمل پر اسکے کام پر اس کو داد دیتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہےتو وہ بچہ لاشعوری طور پر خود اعتمادی کو اپنے اندر اسٹور کرتا چلا جاتا ہے اور یہاں تک کہ وہ خود اعتمادی کا ایک پہاڑ بن جاتا ہے۔اور بڑا ہوکر اپنے تمام منصوبہ بندی کو  انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا تا ہے۔اسی طرح وہ بچہ جو بچپن سے  تنقید کا شکار رہا ہے بڑا ہوکر مایوس کن القابات سے اپنے آپ کو کوسنے میں ذندگی کو برباد کردیتا ہے۔آتھر کہتے ہیں آپ نے اگر امیری کا منصوبہ بنا ہی لیا ہے تو اپنے لاشعور کو اپنے ہی  شعور کی تسلسل کے ساتھ خود کار تجاویز سے بدلنے کی کوشش کریں۔کیونکہ اگر آپ اس تبدیلی میں ناکام ہوگئے تو آپ اپنے ٹارگٹ کو حاصل نہیں کرپائینگے۔اس لئے آتھر اپنے منصوبے کو صبح اور شام ایک ایک بار اتنی آواز سے دہرانے کی ہدایت کرتے ہیں کہ آپ کے کان اس کو سن سکیں۔اور اسطرح آپ بے یقینی کی کیفیات سے باہر آجائینگے۔

 (Special Knowledge) 4۔ مخصوص نالج

نپولین تحریر کرتے ہیں کہ نالج بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک اسپیشل نالج اور دوسرا جنرل نالج۔اگر آپ نے اپنے منصوبے کو گئیر لگا نا ہےتو آپ کے پاس اسپیشل نالج کا  ہونا ضروری ہے۔جنرل نالج کبھی بھی منصوبے کی تکمیل نہیں کرسکتا۔اس کے لئے آپ کو اسپیشل نالج کی وافر مقدار کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کو تجربات کے ذریعے نقصان سے بچانے کا ذریعہ بنے گا۔اسپیشل نالج کا مطلب ہے کسی ایک چیز کے بارے پرفیکٹ علم۔

"It is wrong to say that Knowledge is Power, but the Knowledge is Potential Power”

اس اصول کا خلاصہ یہ کہ آپ کسی ایک فیلڈ کا مکمل تجربہ اور معلومات رکھیں جس کا انتخاب آپنے کیا ہے۔

 

(Imagination) 5۔ تخیل

آتھر کہتے ہیں کہ تخیل بھی دو طرح کا ہو تا ہے۔

A. Synthetic Imagination

B. Creative Imagination

  سینتھٹک  تخیل سے مطلب ہے کہ پرانے آئیڈیاز کو ترتیب وار رکھ کرکسی ایک آئیڈئے کو منتخب کرنا  اور اسی پرانے خیال کو اپ ڈیٹ کر کے استعمال میں لانا۔

جبکہ کرئیٹو تخیل سے مراد ہے کہ آؤٹ آف باکس سوچنا کچھ ایسی چیز کا سوچنا جو صرف آپ کے تخیل میں ذندہ ہو۔نپولین کا کہنا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی بڑی چیز کی ایجاد سب سے پہلے آئیڈیا کی صورت میں انسانی تخیل میں ہوتی ہے۔ جیسے ہوائی جہاز کی ایجا د وغیرہ۔نپولین نے اس بات پر کافی ذور دیا ہے کہ انسانی اپنے تخیل میں ہونے والے کسی بھی آئیڈیا کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔چاہے اس کا تعلق دولت سے ہو ، ایکٹنگ سے ہو یا کسی چیز کی ایجاد سے ہو۔

 (Organize Planning) 6۔ منظم منصوبہ بندی

اس کا تعلق آپ کے اعمال کا تسلسل ہے۔آتھر کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی چیز علی الٹپ نہیں ہوتی۔مثلا" اگر کوئی ایتیھلیٹ  مہینے کے آخر میں ایک ہی رن اپ پر 10 کلو میٹر کا ایک ٹارگٹ سیٹ کرتا ہے۔اور اس کیلئے وہ سارہ مہینہ کوئی کوشش  اور منصوبہ سیٹ نہیں کرتابس مہینے کے آخر میں وہ اٹھتا ہے اور بھاگناشروع  کردیتا ہے۔تو وہ کبھی بھی 10 کلومیٹر کی ریس نہیں جیت سکتا۔اس کیلئے اس کو باقائدہ طور پر منظم منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔سونے اور جاگنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا ایک متناسب فارمولا تیار کرنا ہوگا۔مراقبہ کی متواتر پریکٹس کرنا ہوگی ۔اس کے علاوہ اور ضروری مشقیں بھی کرے تب کہیں جاکر وہ چند کلومیٹر کو ون گو میں کرپانے کا اہل ہوگا۔نپولین نے منصوبہ بندی کو کسی بھی خواہش کی تکمیل کا ستون کہا ہے۔کہ اس کے بغیر کچھ بھی کرنا بے سود اور بے کار ہوگا۔

 (Decision) 7۔ فیصلہ سازی

نپولین کہتے ہیں کہ ان کے تجربے میں کامیاب لوگوں کو کافی تیز فیصلہ ساز پایا ہے۔کامیاب لوگ کسی بھی چیزکو حاصل کرنے سے پہلے خوب جانچ پڑتال کرنے کے بعد جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا تن من دھن سب لگا دیتے ہیں اور کسی کے کہنے میں آکر اپنا فیصلہ کسی صورت نہیں بدلتےاور یہی چیزانھیں ناکام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔

 (Consistence) 8۔ استقامت

نپولین کہتے ہیں کہ جب ناکام لوگوں کو اپنے کام میں رکاوٹیں نظر آتی ہیں تو وہ درپیش مسائل سے سمجھداری کے ساتھ نمٹنے کے بجائے اس سے دور ہٹنے لگ جاتے ہیں اور نتیجے میں ناکامی ان کا مقدر ہوجاتی ہے۔جبکہ کامیاب لوگوں کو میں نے ان کے درمیان مسائل سے نمٹنتے دیکھا ہےوہ فی الوقت  مسائل کو اپنے گول کا حصہ سمجھتے ہوئے اسے چیلنج کا نام دیتے ہیں۔اور کمال ہوشیاری کے ساتھ نا صرف ان مسائل سے باہر آجاتے ہیں بلکہ اس سے ہونے والے تجربات کو آگے آنے والے چیلنجز کا آلہ کار بنا لیتے ہیں۔اس سے آتھر کہتے ہیں کہ جن لوگوں میں استقامت کا فقدان ہوتا ہے وہ  کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتے جبکہ استقامت رکھنے والوں کو میں نے سب سے ذیادہ اپنے گول کو حاصل کرتے دیکھا ہے۔

 (Power of Master Mind)   9۔ مخلص لوگ

ماسٹر مائنڈ کا مطلب نپولین نے بتایا کہ ایسے لوگوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جو آپ کو آپ کےمقاصد لئے معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ ان لوگوں کا گروپ ہوتا ہے جو آپکی مددکرتے ہیں۔اور آپ کو آپ کے مقاصدکے حصول کیلئے حوصلہ دیتے رہتے ہیں۔نپولین کہتے ہیں کہ میں نے ایسے  مخلص لوگوں کو دیکھا ہے  اگر یہ آپ کے مقاصدمیں شامل ہوجائیں تو آپ بہت جلد اپنے گول کو حاصل کرلیتے ہیں۔اس میں آپ کے وجدان کا چارج ہونا ضروری ہے جس سے آپ یہ پہچان لیں کی کون آپ کیلئے مخلص ہے اور کون نہیں۔

 (The Mystery of Sex Transmutation)  10۔ جنسی خواہشات کی تبدیلی کا راز

اس پر میں باقائدہ الگ سے ایک تحریر لکھوں گا جو خاص کر موجودہ ذمانے کے بچوں اور بڑے لڑکوں کیلئے فوکس کیا ہوگا۔اس مضمون میں نپولین نے اس اصطلاح کو پہلی بار استعمال کیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ سیکس ایک کشش ہے جو اپنے وقت پر بہترین نتیجہ دیتی ہے۔مگر اس میں پڑ کر اپنے وقت کو برباد نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ اپنی اس توانائی کو تعمیری کاموں میں لگانا چاہئے۔اور اس کیلئے نپولین نے کامیاب لوگوں کو مراقبہ کی ورزش سے گندے خیالات کو اپنے ذہن سے پاک کرتے دیکھا ہے۔نپولین کہتا ہے کہ سیکس ہر انسان کا ایک لازمی جزو ہے جو اس سے چپکا ہوتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا  اور جب تک جنسی خواہش پر کنٹرول نہیں ہوگا۔اپنے تعمیراتی کام پر فوکس نہیں کیا جاسکتا۔نپولین کہتے ہیں کہ مرد اور عورت میں قدرت میں ایک کشش رکھی ہے۔ کامیاب لوگ اس کشش کو  حوصلہ افزائی اور اپنے مثبت مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

If you do not control your bad habits, you can never be achieve your goals.

(The Subconscious Mind) 11۔ لاشعور

نپولین کہتے ہیں کہ مثبت اور منفی سوچیں کبھی بھی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ ہمارے دماغ کو کنٹرول  نہیں کرسکتیں۔یا تو ہم پر مثبت سوچ غالب رہتئ ہے یا پھر منفی سوچ۔اس لئے ہمیں اپنے لاشعوری دماغ کا ایسے ہی خیال رکھنا چاہئے جیسا ہم اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔اور ہمیں اپنے لاشعوری دماغ کو مشقیں  ، عبادتیں اور مراقبہ کرانا چاہئے کہ یہ ہمارے شعور کو مثبت رکھے۔اس میں آتھر نے اپنی کتاب میں سانس کی کچھ مشقیں کرائی ہیں۔میں کتاب کو نیچے لنک پر شئیر کرادونگا آپ کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

(The Brain) 12۔ ذہن

 ذہن ہمارے جسم کا وہ مصروف ترین حصہ ہے جو کبھی بھی آرام نہیں کرتا۔یہ سوتے میں بھی جاگتا ہے  اور ہمیں لاشعور سے سگنل بھیج کر شعور کو بیدار کرتا ہے۔اور اس وقت بھی یہ ہمیں روحانی  دنیا میں لے جاتا ہے۔اس طرح دماغ کے دونوں حصوں یعنی شعور اور لا شعور کومتحرک رکھنا ہی ہمارے گول کی تکمیل کا سب سے بڑا سبب ہے۔لاشعور سے خیالات جنم لیتے ہیں جو شعور تک لے جاتے ہیں۔ اور شعور اپنے تخیل سے اس میں رنگ بھرتا ہے اور اس چیز کی حقیقت جو لاشعوری دماغ نے اپنے خیال میں سوچی تھی  وقو ع پزیر ہوجاتی ہے۔

 (The Sixth Sense) 13۔ چھٹی حس

نپولین کہتے ہیں کہ ہماری اس حس کو بڑھانے کیلئے  کو ئی ثابت شدہ حیاتیاتی ٹپس نہیں ہیں۔چھٹی حس دراصل وقت کے ساتھ ساتھ تجربات سے حاصل ہونے والے تلخ  اور مثبت نتائج کا ایک پرو سگنل ہوتا ہے جو دماغ اپنے اندر خود سے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ صلاحیت قدرت نے ہر شخص کو عطاکی ہوتی ہے۔مگر ایک کامیاب انسان اس کا باقائدہ استعمال کر کے اپنے آپ کو ممکنہ مسائل سے نمٹنے کا آلہ بنالیتا ہے۔اور ناکام انسان اس کا کبھی بھی استعمال نہیں کرتا۔ نپولین لکھتا ہے کہ اس کے علاوہ انسان کی کم علمی، بے وجہ کا خوف اور بے یقینی ایک ناکام انسان کی ججمنٹ کو متاثر کرتے ہیں۔جس سے وہ وقت پر  فیصلہ نہیں کرپاتا اور ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔

میری رائے اس کتاب کے بارے میں:

اس کتاب کو میں نے کئی  بار مطالعہ کیا اور کئی بار اس کی آڈیو کو سنا اور ہر  بار میں نے آتھر کیلئے ایک الگ سوچ کو پایا۔کیونکہ نپولین نے اس پوری کتاب کو یا پوری بیس سالہ ریسرچ کو انسان کی مثبت سوچ کے ساتھ جوڑا ہے۔اوراسے کامیاب انسان کے پیچھے اس کی کامیابی کا راز صرف اس کی سوچ کو ٹھرایا ہے ۔ اسلئے انسان کی سوچ میں استقامت، مصروفیت، اور جنسی خواہشات کو مثبت کاموں میں لگانے کی طاقت ہے تو پھر یہ اپنے پلان کئے ہوئے کسی بھی مقصد کو بآسانی حاصل کرلیگا۔اس کتاب میں میری رائے کے مطابق نپولین نے اپنی اپنی ذندگیوں پر ایک مفصل رائٹ اپ لکھنے کا پیغام دیا ہے کہ جب آپ اپنے بارے میں اب تک سب کچھ لکھ چکے ہیں تو آپ کو اپنے بارے میں جاننا آسان ہوجائیگا کہ آپ دنیا کی نظر میں ایک ناکام انسان ہیں یا کامیاب انسان۔اگر آپ اپنے آپ کو ایک بفر ایریا میں محسوس کرتے ہیں تو یقین جانئے اس کتاب  کے 13 اصول آپ کو کامیاب انسان بننے میں کافی مددگار ثابت ہونگے۔ مگر اس کیلئے شرط صرف آپ کی سوچ ہےکہ آپ اسے کیسے کنٹرول کرتے ہیں۔کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ:

If you do not control your mind, things will you and hence you will be called looser.

ترجمہ: اگر آپ اپنے دماغ پر قابو نہیں رکھتے ہیں تو چیزیں آپ پر قابو پالیں گی اور آپ کو ایک ناکام انسان کے نام سےپکارا جائیگا ۔

Reactions

Post a Comment

0 Comments

Ads

NASA Zero Gravity

خلائی سفر کے دوران خلابازوں کے جسموں کی حفاظت کے لیے ناسا کی طرف سے تیار کردہ صفر کشش ثقل کی نیند کی پوزیشن، پٹھوں اور جوڑوں کا درد، خرراٹی، تیزابی ریفلکس، خراب گردش، اور ویریکوز رگوں سمیت متعدد صحت کے مسائل میں مدد کر سکتی ہے۔ اس پوزیشن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پیٹھ کے بل لیٹ جائیں اور اپنے سر اور پاؤں دونوں کو دل کی سطح سے قدرے اوپر اٹھائیں۔ اس پوزیشن کے فوائد میں نیند کے معیار میں بہتری، خراٹے اور نیند کی کمی، ایسڈ ریفلوکس اور سینے کی جلن سے نجات، بہتر ہاضمہ اور گردش، اور ویریکوز رگوں اور ورم کی علامات میں کمی شامل ہیں۔ یہ پوزیشن ان لوگوں کے لیے تجویز کی جاتی ہے جو بے خوابی یا نیند میں خلل کا شکار ہیں، کیونکہ یہ صحت مند نیند کو آرام دینے اور فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے۔

Philosophy of Universe

یہ سوال کہ آیا ہماری کائنات ایک سمو لیشن ہے یا دھوکہ ، صدیوں سے فلسفیوں، سائنسدانوں اور ماہرینِ الہٰیات کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔ اگرچہ کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، لیکن اس خیال کے حق میں اور اس کے خلاف کئی دلائل موجود ہیں کہ ہماری حقیقت وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے۔سمو لیشن کے نظریہ کے اہم دلائل میں سے ایک ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی ہے، خاص طور پر مجازی حقیقت کے میدان میں۔ خیال یہ ہے کہ اگر ہم حقیقت کے انتہائی عمیق نقالی تخلیق کر سکتے ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ ہماری اپنی حقیقت بھی ایک زیادہ ترقی یافتہ تہذیب یا ہستی کی تخلیق کردہ نقل ہو۔تاہم، اس نظریہ کے خلاف کئی جوابی دلائل موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، فزکس کے قوانین اور ہماری کائنات کی پیچیدہ نوعیت یہ بتاتی ہے کہ یہ کوئی سادہ سی شکل نہیں ہے۔ مزید برآں، اگر ہماری کائنات نقلی ہوتی، تو اس کی تخلیق کے لیے کوئی مقصد ہونا چاہیے تھا، جس کا فی الحال ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔اسی طرح یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک وہم یا دھوکہ ہے بھی فلسفیانہ اور روحانی بحث کا موضوع ہے۔ بدھ مت میں مایا کا تصور بتاتا ہے کہ ہماری حقیقت ذہن کی طرف سے پیدا کردہ ایک وہم ہے، لیکن یہ خیال سائنسی ثبوت کے بجائے موضوعی تجربے پر مبنی ہے۔آخر میں، جب کہ یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک سمولیشن ہے ی یا پھر دھوکہ ، فی الحال کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ ہماری حقیقت کی نوعیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے، اور یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی دنیا کے بارے میں اپنے تجربات اور تفہیم کو تلاش کرے اور اس کی بہتر طور پر تشریح کرے۔ ۔

 


How to control Old age

بڑھاپا ایک قدرتی عمل ہے جو ابتدائی جوانی میں شروع ہوتا ہے اور درمیانی عمر کے آس پاس تیزی سے بڑھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ جینیات، طرز زندگی اور ماحول جیسے عوامل عمر بڑھنے کی شرح کو متاثر کرتے ہیں۔ درمیانی عمر، عام طور پر 45 اور 65 کے درمیان، ہارمونل تبدیلیوں، پٹھوں اور ہڈیوں کے ساتھ گوست کی کمی، اور آکسیڈیٹیو تناؤ میں اضافے کی وجہ سے ہوتی ہے۔باقاعدہ ورزش، خاص طور پر مزاحمتی تربیت جیسے ویٹ لفٹنگ، پٹھوں اور ہڈیوں کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے، زوال کو روکنے، اور گرنے اور فریکچر کے خطرے کو کم کرکے عمر بڑھنے کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ورزش کرنے سے ٹیسٹوسٹیرون اور گروتھ ہارمون جیسے ہارمونز بھی بڑھتے ہیں، جو عمر کے ساتھ کم ہوتے ہیں اور پٹھوں کے نقصان میں معاون ہوتے ہیں۔ ایروبک ورزش، یوگا، اور صحت مند غذا بھی قلبی صحت کو بہتر بنا کر، تناؤ کو کم کر کے، اور مجموعی صحت کو فروغ دے کر بڑھاپے کو کم کر سکتی ہے۔ مناسب نیند اور ماحولیاتی زہریلے مادوں کو کم سے کم کرنا صحت مند عمر بڑھنے میں مزید مدد کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ، اگرچہ عمر بڑھنے کی رفتار درمیانی عمر کے آس پاس ہوتی ہے، لیکن مختلف حکمت عملی جیسے کہ ورزش، صحت مند غذا، نیند، اور زہریلے مواد میں کمی عمر بڑھنے کے عمل کو سست کر سکتی ہے اور زندگی بھر بہترین صحت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔