(اردو ولڈ کی جانب سے اپنے قارئین کیلئے ایک خاص تحریر)
سائنسدانوں کے مطابق
ہماری ساری ہی کائنات دو چیزوں سے مل کر بنی ہے؛
1۔ مادہّ سے اور
2۔ روشنی یا شعاؤں سے
اورمادہ اسی کو کہا جائیگا جس کے پاس جسم کی کمیت ہویعنی کوئی بھی چیز ایسی ہو جو جگہ کو گھیرتی ہو۔اور دوسرے لفظوں میں یہ کہ مادہ ایٹموں سے ملکر بنا ہوجس میں الیکٹران، پروٹون اور نیوٹرون جیسے بنیادی ذرات پائے جاتے ہوں۔
اس
طرح ہماری پوری کائنات جس میں بڑے بڑے ستارے ، سیارے سورج ، نظام ِ شمسی اور ان سب
سے آگے کہکشائیں یہ سب اصولوی طور پر ایٹموں سے ملکر ہی بنے ہیں۔ان سب کے باوجود
بھی آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اتنی بڑی کائنات میں مادہ صرف پانچ فیصد ہی
ہےاور یہ وہ مادہ ہے جس کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ مگر اس کائنات میں 25 فیصد ایسا مادہ بھی اپنا وجود رکھتا ہے جو ہمارےمادے کی
طرح بالکل بھی نہیں ہے۔نا ہی ہم اس مادے
کو دیکھ سکتے ہیں اور نا ہی اسے محسوس کرسکتے ہیں۔اور باقی کا 70 فیصد حصہ کائنات
میں ڈارک انرجی کا ہے۔مگر آج ہم صرف ڈارک میٹر کے بارے میں جاننے کی کوشش کرینگے۔
سوال یہ ہے کہ جب اس مادے کو نا دیکھ سکتے ہیں
اور نا محسوس کرسکتے ہیں تو اس مادے کا پتا کیسے چلا؟
سائنسدانوں کا کہنا
ہے کہ ڈارک میٹر کے بارے میں ہماری اسٹڈیز نا ہونے کے برابر ہے تا ہم پھر بھی جو
چیزیں ہمیں پتا چلی ہیں اسکے مطابق ہم ڈارک میٹر کو اس لئے نہیں دیکھ سکتے کہ ڈارک
میٹر کو ہم ڈیٹیکٹ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ
روشنی کو نا ہی اپنے اندر جذب کرتا ہے اور نا ہی اسے منعکس یا ریڈی ایٹ کرتا ہے۔اس کے علاوہ ڈارک میٹر
ہماری کائنات میں پھیلی ہوئی الیکٹرو میگنیٹک اسپیکٹرم میں کسی کے ساتھ بھی انٹر
ایکٹ نہیں کرتا اس لئے ڈارک میٹر کا پتا لگانا ناممکن تو نہیں مگر انتہائی طور پر مشکل ضرور ہے۔
بیسویں صدی عیسویں تک
جب تک ہبل نے اپنا ٹیلی اسکوپ نہیں بنایا تھا سائینسدانوں میں عام تاثر تھا کہ کائنات محض ہماری ملکی وے
گلیکسی تک ہی محدود ہے کیونکہ انسان نے کبھی بھی ملکی وے کے باہر کائنات کا مشاہدہ
نہیں کیا تھا۔مگر جب ہبل کی ٹیلی اسکوپ ایجاد ہوئی توسائینسدانوں نے پہلی بار
مشاہدہ کیا کہ کائنات نا صرف بہت بڑی ہے بلکہ یہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ اپنے مرکز سے دور ہٹ رہی ہےمطلب پھیل
رہی ہے اور ملکی وے گلیکسی کی طرح لاکھوں گلیکسی اسپیس میں موجود ہیں جو
انتہائی منظم طریقے سے اپنے آربٹ میں سفر کر رہی ہیں۔اس بات کا اندازہ اس چیز سے
لگایا جاسکتا ہے کہ اگر سائیسندان کائنات کے کسی بھی ایک چھوٹے سے حصے کی اسٹڈی
کرتے ہیں تو اس پارٹ میں قریب دس بلین گلیکسی ہوتی ہیں اور ہر ایک گلیکسی میں تقریبا" دس بلین تارے ہوتے ہیں۔ جب
سائنسدانوں کواتنی گہرائی میں کائنات کا علم ہونا شروع ہوا تو انھونے فلکی اجسام اور انکی آربٹل اسپیڈ پر مائیکرو لیول پر بھی
مشاہدہ کرنا شروع کردیا۔
![]() |
پھیلتی ہوئی کئنات |
ہماری نظام ِ شمسی
کا مرکزی کردار سورج ہے اور اس نظام کے سب
سیارےسوج کے گرد آربٹ کرتے ہیں۔اور سیاروں کا سورج کے گرد چکر لگانا دراصل فورس کی
وجہ سے ہوتا ہے جسے ہم "گریویٹیشنل فورس" کہتے ہیں۔اس میں سائندانوں نے
اندازہ لگایا کہ جو ستارہ سورج سے جتنا قریب ہوتا ہےاس کی آربٹل اسپیڈ بھی اتنی
ذیادہ ہوتی ہے اور اسی طرح جو سیارہ اپنے مرکز سے دور ہوگا اس کی آربٹل اسپیڈ اتنی
ہی کم ہوگی۔ ۔مثال کے طور پر پلوٹو سورج
سے کافی دور ہے تو اس کی سورج کے گرد آربٹل اسپیڈ بھی عطارد سیارے سے بہت کم ہوگی۔(عطارد
سیارہ دوسرے سیاروں کے مقابلے میں سورج سے ذیادہ قریب ہے جس کی وجہ سے اسکی آربٹل
اسپیڈ بہت ذیادہ ہے۔)
اس طرح جو مساوات
سائینسدانوں نے بنائی وہ کچھ ہوں تھی
سیاروں
کی روٹیشنل اسپیڈ œ گریویٹیشنل فورس œ مادہ کی کمیت
یعنی سیاروں کی
روٹیشنل اسپیڈ دراصل اس پر پڑنے والی گریویٹشنل فورس کی وجہ سے ہے اور گریویٹیشنل
فورس کا میگنی ٹیوٹ اس کے بھاری یا کم جسم کی وجہ سے طے ہوتا ہے جو قدرت کا ایک
جنرل بنیادی قانون ہے۔
یہاں تک تو سب کچھ
ٹھیک تھا مگر سائنسدانوں نے ہبل ٹیلی اسکوپ سے اسپیس میں ایک اور چیز کا مشاہدہ کیا اور وہ یہ کہ ہر
گلیکسی کا ایک مرکز ہوتا ہے جسے سائنسدانوں نے گلیکٹک سینٹر کا نام دیا ہے۔
اس گلیکٹک سینٹر کا ماس بھی بہت ذیادہ ہوتا ہے اور اس گلیکسی کے سارے ستارے ،
سیارے اور سیارچے اس گلیکٹک سینٹر کے گرد
آربٹ کرتے ہیں جس سے ان سیاروں کی آربٹل
اسپیڈ طے ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیاروں
کی آربیٹل اسپیڈ سے وہاں پر موجود پھیلے
ہوئے ماس کو کیل کولیٹ کیا جاسکتا ہے۔
مگر جب سائینسدانوں
نے گلیکسی کی بڑھتی ہوئی آربیٹل اسیپڈ سے اس
کے ماس کو کیلکولیٹ کیا تو کیلکولیشن میں ماس کی مقدار بہت ہی کم آئی جس سے
سائنسدانوں کو لگا کہ شاید ان کے لگائے ہوئے حسابیات کے فارمولے غلط
لگ گئے ہیں۔کیونکہ سائنسدانوں کے مطابق گلیکسی کی جس اسپیڈ کا انھونے مشاہدہ کیا ہے اس کا ماس کیلکولیٹڈ ماس
سے دو سے ذائد گنا کم تھا۔تو باقی کا ماس
کہاں تھا اور وہ نظر کیوں نہیں آرہا تھا۔ سائنسدانوں نے دوبارہ ٹرائی کیا مگر
دوبارہ وہی ننتائج برآمد ہوئے۔ پھر انھونے مختلف کہکشاؤں کو مختلف فارمولے فٹِ کر
کے دیکھے مگر ہر مرتبہ وہی نتائج سامنے آئے جو پہلی بار آئے تھے۔
![]() |
Firtz Zwicky |
ان تمام تر کوششوں کے بعد 1933 میں ایک سوئس سائنسدان جس کا نام "فرٹز ذوئیکی" تھا اس کا نام " مسنگ ماس" رکھا یعنی کوئی اایسی چیز وہاں موجود تھی جو نا صرف ہماری آنکھوں سے بلکہ ہبل ٹیلی اسکوپ کی جدید کیمروں سے بھی اوجھل تھی مگر وہ کہکشاؤں کے ان تمام گلیکٹک سینٹرز میں اپنے ہونے کا ٹھوس ثبوت دے رہے تھے۔
ABC
اسپیس میں وہاں دو
چیزیں ایسی ہورہی تھیں جنھیں سائنسدانوں کی کیلکولیشن کے حساب سے وہاں نہیں ہونا
چاہئے تھا۔
1۔ پہلی چیز یہ کہ
گلیکسی کی آربیٹل اسپیڈ جس رفتار سے بڑھ رہی تھی اس حساب سے ان کا ماس بہت کم آرہا
ہے۔
2۔ سارے اسٹار گلیکسی
میں یکساں اسپیڈ سے آربٹ کر رہے ہیں۔
اس حساب سے تو گلیکسی
کو موجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔کہکشاؤں کو ڈس انٹیگریٹ ہوجانا چاہئے تھا۔مگر
گلیکسی اپنی جگہ موجود تھی اور کام کررہی تھی۔
![]() |
Dark matter |
اس طرح سائنسدانوں نے اسے "مسنگ ماس" کہا جسے انھونے اپنے حساب میں گڑ بڑ کے نتیجے میں دریافت کیا ۔سائنسدانوں نے وضاحت کی کہ کائنات میں ڈارک میٹر نے جو اسپیس میں 25 فیصد ہے اپنے حقیقی میٹر کو جو صرف پانچ فیصد ہے باندہ کر رکھا ہوا ہے ۔ اور اس 25 فیصد ماس کو جس نے پانچ فیصد حقیقی ماس کو باندھا ہوا ہے 70 فیصد کائنات میں موجود نادیدہ قوت جسے سائنسدانوں نے ڈارک انرجی کا نام دیا ہے نے کنٹرول کیا ہواہے۔یعنی قدرت کا فول پروف سسٹم تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کیساتھ جڑا ہوا ہے اور کوئی بھی ستارہ یا سیارہ اپنی مرضی سے اپنی آربٹ سے الگ نہیں ہوسکتا۔اگر ڈارک میٹر کو کائنات کے سپاہی کہوں تو غلط نہیں ہوگا جو اسپیس میں چاروں طرف اپنے حقیقی میٹر کے گرد سختی کے ساتھ موجود ہیں اور کسی چرواہے کی طرح اسپیس میں موجود سیاروں کو چر رہے ہیں اور گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments