پہلی جنگِ عظیم 28
جولائی سن 1914 سے شروع ہوتی ہے۔ یہ اس کرۃ ارض کی پہلی ایسی عظیم جنگ تھی جسے
"دی گریٹ وار" کہا گیا۔اور بعد میں اس کا نام تیکنالوجیکل وار" کا
نام بھی دیا گیا کیونکہ اس جنگ میں جدید
طرز کے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ کیمیائی
مواد کی ذہریلی گیسس کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔اس جنگ کے اختتام کے بعد
عام تاثر تھا کہ چونکہ اس جنگ میں دنیا نے ہر قسم کے ہتھیاروں کا تجربہ کرلیا
ہےاور دنیا کچھ خاص طاقتوں کے ہاتھوں میں
چلے گئی ہےاس لئے اسے "گلوبل وار"کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد گلوبل وار کا نام دوسری جنگِ کو دے دیا گیا کیونکہ اس میں مرنے والے عام لوگوں کی تعداد اس وقت مرنے والے فوجیوں کی تعداد سے کہیں گنا ذیادہ تھی۔
مقاصد
اس مضمون میں ہم جنگِ
عظیم اول کی مکمل تاریخ کو ایک ایک کرکے کنگھالنے کی کوشش کرینگے۔ کیونکہ موضوع
ایک اچھی خاصی طوالت رکھتا ہے اسلئے ہم صرف ان چیزوں کو کور کرینگے جس سے ہمیں اس
جنگ کی ،
1۔ وجوہات
2۔ اسباب
3۔تدریجا" ملکوں کی شمولیت
4۔ شمولیت کی وجوہات
5۔ ملکوں کی اندرونی
صورتحال
6۔ اور خاص کر خلافتِ
عثمانیہ کا کرداراور
7۔ اس جنگ میں
ہونے والی اموات اور بچی کچی افرادی طاقت
8۔ اور اس جنگ کے بعد
کتنے نئے ممالک کا قیام ہوا تھا ، کا
ذکر شاملِ حال کرینگے ۔
جنگِ عظیم اول کی سب سے بڑی وجہ
سب سے پہلے اس نقشےکو دیکھیں جس میں آسٹریا –ہنگری کا رقبہ (گلابی رنگ میں)دکھایا گیا ہے۔اس نقشے کو آپ گوگل سے
1914 کے حوالے سے سرچ کراسکتے ہیں۔آج یہ ملک ٹوٹ کر کئی نئے ممالک میں
بٹ چکا ہے جیسے۔
سلووینیا، کروشیا، ہنگری، سلو واکیا، رومانیا اور پولینڈ جیسے اور ممالک بھی اس بٹوارہ کا حصہ بنے۔ 1914 تک یورپ کے اس اکثریتی حصے کو "فرانز جوزف" نامی بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اس کے اپنے تین بیٹے تھے۔
63 Emperor of Franz Joseph |
بد قسمتی سے اس کے تینوں بیٹوں میں اتنی قابلیت، ہوشیاری، اور حکمتِ عملی کے گر نہیں تھے کہ وہ اتنے بڑے حصے پر "فرانز جوزف " کی بادشاہت کو قائم رکھ پاتے۔اس لئے 1889 میں فرانز جوزف نے اس کے بعد اسکے تخت کو کون سنبھالے گااعلان کردیا اور اس میں انھونے اپنے بھتیجے کو اگلا راجہ قرار دیا کہ وہ اس کے اہل ہے اور یہ اعلان اس وجہ سے بھی تھا کہ بادشاہ کی سوچ کے مطابق اس کے بچے اس اعلان کے بعداپنے باپ کے نقشِ قدم پر چل کر جنگی حکمتِ عملی کے گر سیکھ کر اس خطے پر ذمہ دارانہ طور پر حکمرانی کرینگے
بادشاہ کا بھتیجہ جس کا نام " ارشدک فرنانز" تھا کیونکہ مجبورا" چنا گیا تھا اس لئے بادشاہ کو یہ انتہائی ناگوار گزرا تھا۔اس لئے سال 1900 میں جب "ارشدک فرنانز" نے شادی کا فیصلہ کیا تو "فرانز جوزف" نے بہت سی ایسی چیزوں کا اطلاق اس پر لگادیا جو اخلاقی طور پر صحیح نہیں تھی جیسا کہ اس کی شادی "میگنیٹک" ہوگی یعنی شادی کے بعد اس کی بیوی کو کسی بھی طرح کا شاہی درجہ حاصل نہیں ہوگا۔
اور نا ہی بادشاہ سے شادی کے بعد اس کو کوئی خاص پروٹوکول کے اختیارات ہونگے۔اور نا ہی ان کی شادی میں کسی شاہی خاندان کو مدعو کیا جائیگا۔اور اس شادی سے ہونے والے کسی بھی بچے کو اس خطے میں سے کسی بھی حصے کا شہزادہ نہیں بنایا جائیگا۔اور بالکل ایسا ہی ہوا تھا ارشدک کی شادی میں ۔بادشاہ کی اس فضول پابندیوں اور بلاوجہ کی روک ٹوک سے ان دونوں کے درمیان ان بن پیدا ہونے لگی ۔ ارشدک ایک سمجھدار انسان تھا وہ جانتا تھا کہ اگر دنیا پر راج کرنا ہے تو سب سے پہلے عوام ، افواج اور جاسوسوں کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگیا تھا۔ایسے میں اپریل سال 1914 میں بادشاہ "فرانز جوزف" کی طبیعت اچانک خراب ہونے لگی۔جس سے ارشدک کے بادشاہ بننے کے امکانات تیز سے تیز تر ہونے لگےکیونکہ اسے عوام کی کافی پذیرائی حاصل تھی اسلئے عوام بھی اسے بادشاہ کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی۔مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اور اسی سال ارشدک اپنی ہونے والی اہلیہ کیساتھ آسٹریا ہنگری کا دورہ کرنے لگ گئے تھے تاکہ عوام کے مسائل کو ان میں بیٹھ کر حل کرنے کو کوشش کر کے ان کا اعتماد ذیادہ سے ذیادہ حاصل کرے۔کیونکہ اگلے بادشاہ کا انتخاب پہلے ہی "ارشدک" کے حصے میں آچکا تھا۔انھی دنوں 28 جون 1914 میں ارشدک اور ان کی بیوی "بوسنیا " کی ایک جگہ جس کا نام " سارہ جیو" تھا دورہ کرنے کیلئے ان کی شاہی سواری نکلنے کو تیار کھڑی تھی
جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے نئے بادشاہ کے استقبال کیلئے آئے ہوئے تھے۔اسی اثنا میں "ارشدک" کو اپنے وفادار جاسوسوں کی طرف سے اہم پیغامات آنا شروع ہوگئے کہ شاہی سواری کو آج کے دن نہیں نکالا جائے خطرہ ہے۔مگر ارشدک کو آج کے دن ہی دورہ کرنا تھا اسلئے اس دورہ پر اس نے کسی قسم کی کوئی سنوائی نہیں کی اور یوں شاہی سواری میں ہی سفر طے کرتے ہوئے ارشدک اور اس کی بیوی پر حملہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ عوام کا بے پنہاں ہجوم تھا اس لئے وہاں کچھ ایسے عناصر بھی موجود تھے جو آسٹریا ہنگری میں ارشدک کی بادشاہت نہیں چاہتے تھے۔ اسی ہجوم میں ایک شخص جس کا نام "گرویلو پرنسپ" تھا اس نے ارشدک اور اس کی بیوی دونوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
یہاں اہم سوال یہ ہے
کہ جاسوسوں نے ارشدک کو اس علاقے میں جانے سے کیوں روکا تھا؟ دراصل سال 1908 میں
ارشدک کے چاچا اور ہنگری کے راجہ "فرنانز جوزف" نے "بوسنیا"
پر حملہ کر کے اس کو ہنگری میں شامل کرکے اپنا غلام بنا لیا تھا۔جس سے بوسنیا
ریاست کی اپنی پہچان ختم ہوگئی تھی۔اس وجہ سے یہاں بہت سی تحریکیں سر اٹھانے لگ
گئی تھیں انھی میں سے ایک تحریک جسا کا نام "بلیک ہینڈ" تھا اسی کا ایک 19 سالہ کارکن
"گرویلوپرنسپ" نے حملہ کرکے ارشدک کو اسکی بیوی سمیت گولی مارکر ہلاک
کردیا تھا۔اور اس طر ح یہ علاقہ فی الحال ہنگری-آسٹریا کے ریڈ ذون میں آگیا
تھا۔اور یہی وجہ تھی کہ جاسوسوں نے ارشدک کو یہاں دورہ کرنے سے فی الوقت منع کی تھا۔اور اس سے پہلے بھی ہنگری کے دوسرے
ریڈذون علاقوں میں ارشدک پر تین بار جانی حملہ ہوچکا تھا جس سے وہ بچ نکلنے میں
کامیاب ہوگیا تھا۔آج ایکسپرٹ اس بارے میں بات کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر ارشدک اپنے
جاسوسوں کی بات مان لیتا تو آج دنیا ویسی نہیں ہوتی جیسے ہے۔کیونکہ یہیں سے جنگِ
عظیم اول کی شروعات ہوتی ہے۔
1914 سے پہلے کے
عوامل
جنگِ عظیم اول کی دیگر بڑی وجوہات
اس جنگ کی شروعات میں
اور بھی بہت سے تاریخی، معاشی معاہدات،
اور جنگی معاہدات کے موٹے موٹے عوامل
شامل ہیں جو اس جنگ کو عالمی جنگ تک لے گئے، اس کیلئے ہمیں 1914 سے پہلے کے حالات کا سرسری
سا جائزہ لینا ہوگا جن میں سرَ فہرست؛
1۔ یورپی ممالک کے درمیان غیر متوازن صورتحال
جیساکہ تاریخ سے پتہ
چلتا ہے کہ یورپ نے دنیا کے اچھے خاصے ممالک پر حکومت کی ہے جس میں خصوصا"
انگریز، فرانسسی اور پرتگالی شامل ہیں۔لیکن ان ممالک میں جرمنی سب سے پیچھے تھا۔یعنی
اس وقت کی یورپی ترقی میں جرمنی کا کوئی خاص کردار شامل نہیں تھا۔
Bismarck |
لیکن سن 1871 میں
جرمنی میں "بسمارک" کا چناؤ ہوا۔اور اس نئے سربراہ کی قیادت میں
جرمنی اپنے اصولوں اور فوجداری ضابطوں کی ساتھ روز بروز ترقی کی منزلوں کو طے کرنے
لگا جو دوسرے یورپی ممالک کو قطعا" ہضم نہیں ہورہا تھا۔ان ممالک میں خاص کر
انگلستان اور فرانس کا نام شامل ہے۔اس طرح ان تین ممالک کے درمیان ترقیاتی مقابلے نے جنم لیا۔
2۔ خفیہ معاہدات
1908 سے پہلے ہی یورپی ممالک میں خفیہ معاہدات
کا رجحان بڑھنے لگا۔جیسے اگر کسی نے فرانس پر حملہ کیا تو اسے انگلستان پر حملہ
تصور کیا جائیگا اسی طرح اگر انگلستان پر
کسی ملک کی طرف سے حملہ ہوتا ہے تو فرانس اس جنگ میں انگلستان کی مددد کو پہنچے گا۔اور
اس جنگی حکمتِ عملی کو صرف ان دوممالک کو ہی پتا ہوتا تھا۔اور ان معاہدات کو
انتہائی راز میں رکھا جاتا تھا۔اسی طرح اگر روس اور اٹلی میں جنگی حکمتِ عملی کے
معاہدات ہوتے تو وہ بھی اس کو راز میں رکھتے۔ اس طرح اندر ہی اندردنیائے ممالک کے درمیان ایک ذنجیر بنتی چلی گئی۔ان
تمام خفیہ معاہدات کی ابتدا جرمنی کے بننے والے نئے سربراہ "بسماک" نے
کی تھی۔اور اپنی سربراہی میں آتے ہی
انھونے یورپ کے ممالک سے خفیہ معاہدات کرنے شروع کردئے ۔جس کی وجہ سے اور ممالک کو
جب اس معاہدہ کا پتہ چلتا تو حکمتِ عملی کو کاپی کرلیتے۔اس دوران دو قسم کے خفیہ
گروپس کی تشکیل ہوئی۔
الف۔ ٹرپل الائینس
1882 میں پہلا خفیہ
معاہدہ جرمنی، اٹلی اور آسٹریا ہنگری کے درمیان ہوا۔جس میں یہ طے ہوا کہ کسی بھی
ملک پر اگر حملہ ہوتا ہے تو باقی کے دو ممالک اس کی مدد کو پہنچیں گے۔لیکن حقیقت
میں جب جنگ شروع ہوئی تھی تو اس وقت اٹلی نے مدد کرنے سے انکار کردیا۔
ب۔ ٹرپل اینٹینٹ
1907 میں یہ معاہدہ
انگلستان ، فرانس اور روس کے درمیان ہواتھا تاہم
1904 میں پہلے اس معاہدہ میں صرف دو ممالک شامل تھے فرانس اور انگلستان اور
اس وقت اس کا نام "انٹینٹ کورڈیل" رکھا گیا تھا۔
تو یہ معاہدات تھے جو
جنگِ عظیم اول کا سبب بنے۔کیونکہ ان دومعاہدات کی بنیاد پر یورپ دو حصوں میں منقسم
ہوگیا تھا۔
3۔ملیٹریزم
تیسری بڑی وجہ جو جنگِ عظیم کی وجہ بنی وہ تھا یورپی ممالک میں ہتھیاروں کی تیز ترین دوڑ، جس میں اس وقت کے جدید ترین ہتھیار متعارف کرائے گئے اس میں مشین گن، ٹینک ، بندوقیں، ائیر ٹروپرس، آبی جہاز، بڑی آرمی اور کئی طرح کے ہتھیار بنانا شروع کردئے۔ان میں سر فہرست ممالک انگلستان اور جرمنی تھے۔جنھونے اپنی انڈسٹریل انقلاب کو اپنی آرمی کو مضبوط بنانے کی مفاد میں رکھا۔اور یورپ کے جو باقی چھوٹے ممالک تھے وہ ان دو ممالک کی کاپی کرتے اور انھی سے ہتھیاروں کی
ٹیکنالوجی کو خریدتے تاکہ مشکل وقتوں میں اپنے ممالک کی دفاع جدید ہتھیاروں سے کی
جاسکے۔چھوٹے یورپی ممالک کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح جرمنی اور انگلستان کی
ٹیکنالوجیکل ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوسکیں۔ لیکن کیا پتا تھا کہ یہی دونوں بڑے
ممالک دنیا کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دینگے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت فرانس
اور جرمنی اپنی ملک کی کل آمدنی کا 85 فیصد حصہ ملیٹری اور ہتھیاروں کی انڈسٹریز
پر صرف کر رہا تھا۔ اب آپ سوچ سکتے ہیں
کہ کس قسم کا جنگی جنون ہوتا ہوگا۔کیونکہ اس وقت پورا یورپ ایک
طرح سے بارو د کے ڈھیر پر بیٹھ گیا
تھا اور صرف چنگاری دینے کی دیر تھی۔
4۔ سامراجیت
اس کام میں سب سے آگے انگلستان تھا کیونکہ اس وقت دنیا کے 25 فیصد حصے میں اسی کا قبضہ تھا۔سامراجیت کے ماڈل میں ممالک پر تجارت کے نام پر سازشوں سے قبضہ کرنا اور وہاں کی عوام کو غلام بناکر ان کو لوٹنا۔یورپ کے دیگر ممالک جیسے فرانس ، جرمنی اور پرتگال کو یہ ماڈل اپنی طرف کھینچتا تھا۔اور یہ ممالک بھی دوسرے چھوٹے ممالک کو قبضانہ چاہتے تھے۔جس کیلئے انھونے اپنا دائرہ ایشیا ء اور افریقہ تک پھیلانے میں کوششیں شروع کردیں۔اور اس دور کو "اسکریمبل آف افریقہ"
بھی کہا گیا ہے۔اس میں یورپی
ممالک کے فرانس، جرمنی، ہولینڈ، اور بیلجئیم جیسے بڑے ممالک شامل تھے۔اور افریقہ
میں اپنی سامراجیت کے جھنڈے گاڑنے پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے اور برباد کرنے کی
کوششیں کرنے لگے۔ا س طرح پہلی جنگِ عظیم کا یہ ماڈل اس جنگ کو چھیڑنے میں کافی
موثر ثابت ہوا۔
5۔ صنعتی اور تجارتی مقابلے
اس جنگ کی اگلی بڑی
وجہ جو جنگی معاونت کا سبب بنی وہ یورپی ممالک کے درمیان آپس میں صنعتی اور تجارتی مقابلے تھے۔اس کی ابتداء
انگلستان نے اپنے ملک سے شروع کی جو ہندوستان اور دیگر غلام ممالک سے محنت کرواکر
کچا مال اپنی فیکٹریئوں میں تیار کر کے
دنیا بھر کے بازاروں میں اس کی رسد کو
پہنچاتا۔اور انگلستان کی اس بڑھتی ہوئی
ترقی کو یورپ کے دوسرے ممالک بھی دیکھ رہے تھے۔فرانس اور روس نے بھی اس ماڈل کو
اپنایا اور اپنے ہی ممالک میں فیکٹریوں کا قیام کرکے اپنے ہی مین پاور کو استعمال
کرتے۔اس طرح انگلستان کے ساتھ دو اور ممالک کا صنعتی قیام میں اضافہ ہوا۔اور دنیا
کے بازاروں میں اپنے مال کی رسد پہنچانے کیلئے ایک دوسرے کیساتھ معاہدات کو طے
کیا۔اور اپنی برانڈنگ میں "میڈ انِ انگلینڈ"، "میڈ انِ فرانس"
اور میڈ انِ روس جیسے ٹیگ لگانا شروع کردیئے،جس سے دوسرے یورپی ممالک میں ان کی اس
صنعتی ترقی سے کڑواہٹ پیدا ہونا شروع ہوگئی۔اس طرح صنعتی اور تجارتی انقلاب اس جنگ
کے خاموش عوامل تھے۔جو آپس میں اندر ہی
اندر گھٹتے جارہے تھے۔ جرمنی اور اٹلی نے
اس ماڈل کو اپنانے میں کافی دیر کردی تھی جس کی وجہ سے ان کو تجارتی منڈیوں میں
اپنی رسد کی جگہ نہیں مل پاتی تھی اور نتیجے میں نقصان کا ازالہ اٹھانا پڑتا۔ اس
لئے ان دو ممالک نے ایک ترکیب یہ سجھائی
کہ بازاروں پر جارحانہ قبضہ شروع کردیا جو بعد میں جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
6۔قوم
پرستی
اگلی سب سے بڑی اور خطرناک وجہ جو اس جنگ کا سبب بنی وہ یورپی ممالک میں حد درجے بڑھتی ہوئی قوم پرستی تھی۔یورپ کے ذیارہ تر ممالک میں ایک ہی نارہ لگتا کہ صرف میرا ملک گریٹ ہے۔اس کی شروعات جرمنی کے سربراہ "قیصر ولیم" نے کی
تھی۔اور قوم پرستی کا یہ نارہ فرانس،
بیلجئیم ، بریٹن جیسے ممالک میں پھیلنے لگا تھا۔اور ان کو اس بات کا اندازہ ہو
چلاتھا کہ دوسرے ممالک کو لڑائی میں ہرا کر ہی اپنی قوم کو مضبوط بنایا جاسکتا
ہے۔
7۔ مذہبی انضمام
یورپی ممالک میں قوم
پرستی کیساتھ ساتھ ذات ، نسل، ذبان اور تاریخی روایتوں پر بھی انفرادیت شروع ہوگئی
تھی۔اس وقت ان کا مامننا تھا کہ ایک ذبان کے لوگ یا ایک نسل کے لوگ اگر ساتھ مل کر
چلیں تو وہ باقی ملکوں کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔اس طرح جرمنی اور اٹلی ایک دوسرے کے
کافی قریب تھے۔ان میں ایک چھوٹی ریاست اور تھی مگر وہ اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کے
قبضے میں تھی۔ اس طرح یہ تحریک یورپ میں کافی
تیزی سے کام کرتی چلی گئی کہ سلطنتِ عثمانیہ سے اس ریاست کو الگ اور آزاد کیا جائے۔اس طرح ترکی اور آسٹریا ہنگری میں
"سلاؤ" نسل کے لوگ رہتے تھے۔یہی سلاؤ لوگ اپنی الگ ریاست کی ڈیمانڈ کر
رہے تھے۔اس کو موقع جانتے ہوئے روس نے سلاؤ کی پشت پناہی کرنا شروع کردی۔اس سے روس
اور ہنگری کے درمیان بین الاقوامی تعلقات میں دڑایں پڑ گئیں۔
8۔ اشتعال انگیز
تحریریں اور اخباروں کا استعمال
جس طرح آج کے دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال ہوتا ہے اسی طرح اس دور میں عوام اور ممالک کے درمیان ان کی ذبانوں میں اشتعال انگیز تحریریں اور ناولوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔اور اس وقت کے سیاست دان، فلاسفر، اور رائٹرز حضرات
ایک بڑی جنگ کی وکالت اور پیشن گوئیوں میں مصروف تھے۔ جو بہت حد تک عوام الناس کی ذہن ساذی اور نفسیاتی کیفیات کو جنجھوڑ رہی تھی۔
9۔ بین الاقوامی تنظیموں کی کمی
جس طرح دوسری جنگِ
عظیم سے پہلے "لیگ آف نیشن" بنایا گیا تھا۔اس طرح کی تنظیم پہلی جنگِ
عظیم سے پہلے نہیں تھی۔جو سارے ممالک کو اکھٹا کر کے ان کے درمیان ثالث کا کردار
ادا کرکے معاملات کو رفع دفع کرتی۔اس وقت کسی بھی قسم کا کو ئی بھی "لاء اینڈ
آرڈر" نام کا قانون نہیں تھا ۔سارے ہی ممالک اپنے ملک کو گریٹ کرنے کیلئے کچھ
بھی کرنے کو تیار رہتے تھے۔جس کی وجہ سے نفرت اور فریب جیسے عناصر نے ان کے درمیان
جنم لینا شروع کیا۔اور یوپی ممالک کے درمیان خلشوں کا جنم دیا تھا۔
10۔ کیسر ولیم 2
جرمنی کو ترقی کی دوڑ
میں لیکر آنے والا بس مارک تھا لیکن ان کی موت کے بعد جرمنی کی سربراہی کیسر ولیم2
کے ہاتھوں میں آئی۔انھونے جرمنی کو "سپر پاور" بنانے کا آئیڈیا دیا۔اس
لئے یہ مسلسل اپنی آرمی پاور کو بڑھارہے تھے۔جرمنی کی اس جارحیت کو دیکھتے ہوئے
انگلستا ن نے جرمنی کو اسٹاپ لگانے کی ہدایت کی ۔ مگر جرمنی انگلستان کی ہدایتوں کو نظر انداز کر کے بدستور
اپنی آرمی پاور اور اسلحہ کو مسلسل بڑھاتا
رہا جس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ٹرین جو جرمنی کو سلطنتِ
عثمانیہ سے متصل ملک بغداد سے
ملاتی تھی اور 1910 میں قائم کی
گئی تھی اس پر اپنا بند لگا دیا۔اس ریلوے
لائن کو "برلن بغداد ریلوے" کہتے تھے۔اس طرح جرمنی اور انگلستان کے بیچ
کھلم کھلا ان بن شروع ہوگئی۔اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ مانا جاتا ہے پہلی جنگ
عظیم کی شروعات میں۔
|
تو 1914 سے پہلے یہ
سب عوامل تھے جنگ عظیم اول کے، اور ان تمام تر مطالعہ سے یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ
سارہ ہی یورپ بارود کے گوداموں سے بھرا
ہوا تھا بس ایک چنگاری کی ضرورت تھی جو آسٹریا کے نئے سربراہ ارشدک کی ہلاکت سے شروع ہوئی۔
1914 اور بعد کے عوامل
جیسا کہ پہلے بتایا
جا چکا ہے کہ جس تنظیم نے ارشدک کو گولی کا نشانہ بنایا تھا وہ بوسنیا شہر سے تعلق
رکھتی جس کا نام "بلیک ہینڈ"
تھا۔ لیکن جس ملک نے انھیں اس کام میں سپورٹ کیا وہ "سربیا" تھا۔سربیا
نے سپورٹ اس لئے کیا کہ جو شہر آسٹریا ہنگری نے ہتھیا لئے تھے وہاں سلاوک آبادی والے لوگوں کی اکژیت
تھی۔دوسرے لفظوں میں "سربیا" ڈائریکٹ معاون تھا ارشدک کی موت کا۔
سربیا جانتا تھا کہ
آسٹریا ہنگری اس کیلئے جو ان سے ہو سکے گا اقدامات کریگا لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران
رہ گئے کہ ارشدک کا چچا جوزف نے اس سلسلے میں چپ سادھ لی اور کئی دنوں تک یہی کہتا
رہا کہ جو ہونا تھا سو ہوا احتیاط برتنا چاہئے تھی وغیرہ لیکن فوج کا سپہ سالار ارشدک
کا وفادار تھا اس نے بادشاہ کو اس بات پر قائل کیا کہ ارشدک کی مت کے بہانے کیوں
نا سربیا کو ہنگری سے ملا دیا جائے اور سربیا ہنگری کے بالکل سرحد سے ملا ہواتھا۔
اس طرح ارشدک کی موت کے ٹھیک 25 دن بعد 23 جولائی 1914 کوہنگری نے سربیا کو دس نکات پر مشتمل ایک الٹی میٹم بھیجا۔
جس میں سربیا نے 10 میں سے 8 نکات کو قبول کرلیا۔مگر 2 نکات میں ہتھیار ڈالنے کی دھمکی دی گئی تھی اور سربیا کو ہنگری کا حصہ ماننے کی سخت پیش کش کی گئی تھی جس کو سربیا نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ جنگ کے بغیر ہم ان دو نکات کو نہیں مان سکتے۔
اس طرح 28 جولائی
1914 کو ہنگری نے اپنی آرمی کے ساتھ ملکر سربیا پر حملہ کردیا۔سربیا اس متوقع جنگ
سے پہلے سے باخبر ہوچکا تھا۔اوراس نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے روس سے مدد مانگ لی۔روس
میں بھی سلاوک باشندے رہتے تھے۔اسلئے روس
نے کھلے دل کیساتھ ان کی مدد کرنے میں
ناصرف حامی بھرلی بلکہ فوری طور پر تیاری کے احکامات جاری کردئے۔کون جانتا
تھا کہ سرب جو مدد مانگنے روس کے پاس گیا ہے اصل میں ایک بہت ہی بھیانک جنگ کی
شروعات کا پیش خیمہ تھی جو کچھ ہی عرصے میں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی
تھی۔
روس نے مدد کیلئے اس لئے بھی منع نہیں کیا کہ "بلیک سی" سے روس کے بحری جہاز تجارت کا سامان دوسرے ممالک میں رسد کرتے تھے۔اس لئے روس کو یہ ڈر تھا کہ اگر ہنگریا سربیا پر قابو پالیتی ہے تو ان کے تجارتی جہازوں پر پابندی لگا سکتی ہے۔ کیونکہ "بلیک سی" کے آہنی طرف سلطنت عثمانیہ تھی اس لئے وہاں ان کے لئے تجارتی سامال کا لے جانا مشکل ہو سکتا تھا۔
ہنگری چونکہ جرمنی اور اٹلی کا "ٹرپل الائینس" تھا اسلئےہنگری نے جرمنی اور اٹلی کو مدد کیلئے کہا۔ اس پر جرمنی فوری طور پر تیار ہوگیا پر اٹلی یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گیا کہ ہمارا معاہدہ کسی ملک کا ہم میں سے کسی ایک ملک پر حملے کا ہواتھا مگر یہاں تو آپ خود جنگ کو مسلط کر رہے ہیں۔
دوسری طرف روس نے
جرمنی پر اپنی فوجیں پیچھے سے اتارنا شروع کردیں۔1907 میں "ٹرپل انٹینڈ"
کے نام سے روس اور فرانس کاخفیہ معاہدہ
تھا اسلئے فرانس بھی روس کی مدد کیلئے
میدان میں آگیا اور اس طرح 3 اگست 1914 کو فرانس نے جرمنی پر فرنٹ سے حملہ کردیا ۔
اس طرح جرمنی اپنی دو سرحدوں سے لڑ رہا تھا۔
جرمنی جانتا تھا کہ
وہ آسانی سے روس جیسی برفباری ذمین کا
مقابلہ نہیں کرسکتا اسلئے اس نے پلان بی
پر عمل کیا اور فرانس سے متصل ملک بیلجئیم پر حملہ کردیا یہ سوچ کر کہ پہلے فرانس
کی فوجوں کو پیچھے دھکیل دیا جائے۔
مگر 1839 میں بیلجئیم کا پہلے سے انگلینڈ کیساتھ"ٹریٹی آف
لندن"تھا جس کے تحت اگر بیلجئم پر کوئی ملک حملہ کریگا تو انگلینڈ اس کی مدد
کو آئیگا۔اس طرح انگلینڈ بھی اس جنگ میں کو د گیا اور 8 اگست 1914 کے دن انگلینڈ
نے جرمنی پر دھاوا بول دیا۔
ہوا یوں کہ جرمنی کی فوج کچھ ہی عرصے میں بیلجئیم کوکرا
اس لڑائی میں ابھی تک
سلطنتِ عثمانیہ کی طرف سے پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔(جس میں مشرقی وسطیٰ کے آج کے اچھے خاصے ممالک شامل ہیں جس میں ترکی، شام، اعراق ، اردن اور فلسطین شامل تھے) اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کا لیڈر اسماعیل پاشا تھا جسے
کمال پاشا بھی کہا جاتا ہے۔قریبا" 5 صدیوں سے سلطنت عثمانیہ کی روس سے روایتی
دشمنی چلی آرہی تھی۔اس طرح موقع دیکھ کر نومبر 1914 میں کمال پاشا نے "بلیک سی" کے کنارے جو
روس کا بارڈر تھا اس پر حملے کے احکامات جاری کردئے۔
انگلینڈ برصغیر سے آرمی اور سامان سوئس کنال کے ذریعے جہازوں میں بھر بھر کر لاتا تھا۔اسلئے کمال پاشا نے سوئس کنال پر حملے کے احکامات بھی جاری کردئے تاکہ انگلینڈ کے بری جہازوں کو روکا جاسکے۔تاریخ کہتی ہے کہ اگر سلطنتِ عثمانیہ انگلینڈ کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوجاتے تو انگلینڈ یہ جنگ ہار سکتا تھا۔لیکن سلطنتِ عثمانیہ کے کمال پاشا سوئس کنال پر قبضہ نہیں کر پایا تھا۔
1915 میں اٹلی نے
اپنا پینترا بدلا اور فرانس اور انگلینڈ کےت ساتھ مل کر اپنے ہی الائی ہنگری پر
حملہ کردیا۔انگلینڈ نے اس وقت جہاں جہاں اس کا قبضہ تھا وہاں کو فوجوں کو اس جنگ
کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا۔اس میں ہندوستان، کینیڈا ، نیوذی لینڈ، ساؤتھ
افریقہ کے اور بھی کئی غلام ممالک کے فوجی اس جنگ میں شامل ہوئے۔
7 مئی 1915 کے دن جرمنی کے فائٹر بحریہ جہاز نے ایک مسافر جہاز پر حملہ کردیا جو امریکہ جارہا تھا۔اس میں ٹوٹل 1153 بے گنا شہری مارے گئے۔بعد میں امریکہ نے دعویٰ کیا کہ اس میں 128 امریکن باشندے سوار تھے جن کو جرمنی نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔اس واقعے سے پہلے امریکہ کا یہی کہنا تھا کہ یہ جنگ یورپ کی ہےاس لئے ہم اس میں سے کسی کے بھی ساتھ نہیں ہیں اور اس وقت تک امریکہ نے جنگ میں شامل دونوں پارٹیوں کو سامان اور اسلحہ ہیچ کر بے پناہ پیسہ کما لیا تھا۔اور امریکہ اسی کام میں خوش بھی تھا۔
لیکن 128 بے گناہ
امریکی شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ نے جرمنی پر حملہ کرنے کا عندیہ دے دیا۔اور
حملے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ جرمنی نے ایک پیغام ساؤتھ امریکہ کی جانب میکسیکو
کی طرف بھیجا کہ وہ اس جنگ میں ہمارا ساتھ سے اور اینگلو امریکہ پر حملہ کردے۔ یہ
پیغام کسی طرح امریکہ کے ہاتھ لگ گیا اور یوں امریکہ کو جرمنی کے خفیہ عزائم کا
علم ہوگیا تھا۔میکسیکو نے بھی جرمنی کی مدد سے انکار کردیا تھا۔اس وقت امریکہ کے
صدر "وڈرو ولسن" تھے جنھونے ان دوواقعات کی بنیاد پر جرمنی پر حملے کو
یقینی بنایا۔اور اسطر ح ولسن نے 14 نکات پر مبنی ایک لیٹر تیار کروایا کہ ہم اس لڑائی میں کیوں
شامل ہو رہے ہیں اس کا مقصد عوام کی رائے اور عوام میں آگاہی کو جگانا تھا۔اسطرح
امریکہ الائیڈ فورس کے ساتھ شامل ہوکر لڑائی میں اپنا کردار بخوبی انجام دیا۔اور
ہر راز دس ہزار فوجیوں کا ایک دستہ جرمنی اور ہنگری کے بارڈر پر اتارنا شروع
کردئے۔اور یوں الائیڈ فورس کی طاقت دگنا تگنا اضافہ ہوگیا۔
دوسری طرف اکتوبر 1917 میں روس میں لینن کی انقلابی مہم پاور میں آگئی تھی جن پر عوام کا جنگ بندی کا بہت ذیادہ دباؤ تھا
اسی وجہ سے انھونے جرمنی کے ساتھ مزید جنگ بندی کا اعلان کردیا۔اور یوں
مارچ 1918 میں اس جنگ کا ایک باب بند ہوا۔
1918 کا یہ بالکل آخری وقت تھا جب روس نے جرمنی سے جنگ بندی کا اعلان کیا۔اسطرح جرمنی ایک طرف کے
جنگی دباؤ سے باہر آگیا تھا۔ اب اس نے اپنا پورا ذور دوسری جانب یعنی فرانس کی
جانب کردیا۔مگر یہ سب بو سود رہا کیونکہ ان کی اگلی جانب سے امریکہ کی آرمی پہنچ
چکی تھی۔اور یوں امریکہ کی مدد سے الائیڈ پاور نےسینٹرل پاور کو شکست دے ڈالی جس
میں جرمنی، آسٹریا ہنگری امپائر اور سلطنتِ عثمانیہ شامل تھے۔اس طرح 11 نومبر 1918
کو جرمنی نے الائیڈ پاور کو آفیشلی سرینڈر کردیا۔
الائیڈ اور سینٹرل
پاور میں ممالک کا جائزہ
الائیڈ پاور میں کل
ملا کر 15 ممالک کی شمولیت رہی جب کہ سینٹرل
پاور میں صرف چار ممالک ہی شرکت کر پائے۔
پہلی جنگ عظیم - شماریات
درج ذیل جدولوں میں پہلی جنگ عظیم میں لڑنے والے ممالک کے اعدادوشمار کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جنگ سے پہلے کی آبادی، کل فوجی اور سویلین اموات کے ساتھ ساتھ کل ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غیر جانبدار یورپی ممالک بھی شامل ہیں جن میں بھی اہم جانی نقصان ہوا۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments