قدرتی مظاہر اور ان سے جڑے قوانین میں ایسا کبھی نہیں
دیکھا گیا ہے کہ سورج بھی نکلا ہواہو اور رات بھی ہو رہی ہو، آگ بھی بھڑک رہی ہے
اور پانی بھی اندر ہویعنی جس طرح دو متضاد
چیزیں بیک وقت وقوع ہونا محال ہے اسی طرح دنیا میں رحمانی نظام اور ابلیسی نظام آپس میں
دو متضاد نظام ہیں اور ان دو نظاموں کا بیک وقت ہونا ممکن نہیں۔ یہ نظام بعینہ
ایسے کام کرتا ہے جیسے Probability میں Mutually Exclusive Event کا قانون کام کرتا ہے۔
سن 1909 میں سلطنت عثمانیہ کی بدترین اندونی اور بیرونی سازشوں اور مداخلتوں سے سلطان حمید کی خلافت کا غیر اعلانیہ انہدام ہوا ، سن 1913 میں امریکہ کا فیڈرل ریزرو وجود میں آیا۔ سن 1914 میں پہلی جنگِ عظیم کی شروعات ہوئی جو 1918 تک چلی۔ 1918 میں ہی سلطان حمید کی وفات ہوئی۔ سن 1922 میں مکمل طور پر خلافت کا نظام دنیا سے ختم کیا گیا۔ اس کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1923 میں صیہونی قوتوں میں اضافہ ہوا اور گریٹر اسرائیل کا تصور تیزی سے یورپ میں پھیلنے لگا۔1938 میں ایک اور جنگِ عظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کا دورانیہ آٹھ سال رہا اور 1945 میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ۔ 1945 میں ہی انگریزوں سے اسرائیل کا آفیشل طور پر خطہ لینے پر آمادگی کی گئی۔اس طرح خلافتی نظام کے انہدام کے بعد صیہونی نظام کی اقامت ہوئی یعنی شیطانی نظام کی ابتداء ہوئی اور 1948 میں اسرائیل کا وجود ہوا اور تھیو ڈور ہرذل کی خواہش پوری ہوئی۔ لیکن اس سے ٹھیک ایک سال پہلے یعنی 1947 میں ارضِ پاک کا وجود اس دنیا کے نقشے پر ہوچکا تھا۔دنیا میں دو میں سے کسی ایک کا نظام ہمیشہ غالب رہا ہے۔ یا تو حق کا یا پھر باطل کا۔ اس وقت دنیا مکمل طور پر فساد فی الارض کی حالت میں ہے جس کا باقاعدہ آغاز 1913 سے ہی ہو گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ظلم کا یہ نظام کب تک غالب رہیگا۔ کیونکہ ایک صدی ہونے کو ہے اور مسلمان ابھی تک اپنا خلیفہ منتخب نہیں کرسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے
حالات کا از سرِ نو سے جائزہ لیا جائے اور
ان کا مجموعی طور پر SWOT analysis کیا جائے اور اس میں بھی سب سے پہلے اپنی
کمزوریوں اور خامیوں کو نکال کر اپنی اسٹرینتھ سے توازن کو برقرار رکھا جائے۔
کیونکہ خلافت کی غیر حاضری میں خدائی مدد
کا آنا محال ہے۔ آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کمنٹ کرکے اپنے نکتہ نظر کا اظہار ضرور کریں۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments