درختوں کی اکثر انواع بڑی عمر پالینے کی ذبردست صلاحیت رکھتی ہیں۔ پرانے جنگلوںمیں چار سے پانچ سو سال عمر پانا معمول سی بات ہے۔ لیکن جس طرح انسانوں کی اوسط عمر سے کسی فرد کی عمر نہیں نکالی جا سکتی، کوئی کم عمر پاتا ہے تو کوئی زیادہ عمر پالیتا ہے، دنیا میں آنے کی ترتیب طے ہے یعنی پہلے اجداد، پھر دادا، پھر باپ، پھر بیٹا اور پھر پوتا۔ ویسے ہی درختوں کے ساتھ بھی ہے۔ کیڑے، فنگس، بیکٹیریا، وائرس ان کے اوپر حملہ کرنے کو ہروقت تیار رہتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ خراب موسم اور دوسرے عوامل ان کو بیمار کر کے مار بھی سکتے ہیں۔
قدرت کی طرف سے درخت اپنی توانائی کا بڑا حصہ اپنی روزانہ کی زندگی پر خرچ کردیتے ہیں۔ سانس لینا، کھانا
ہضم کرنا، اپنے فنگل نیٹ ورک کو شوگر مہیا کرنا۔ لیکن کیا ہی کہنے اس قدرت کے کہ درختوں
نے توانائی کا ایک بڑا حصہ خطرات سے نمٹنے کے لئے بھی مختص کیا ہوتا
ہے۔
اس خفیہ ریزرو میں اس کے دفاعی کمپاوٗنڈ ہیں جو ضرورت پڑنے پر حرکت
میں آ جاتے ہیں۔ فائٹن سائیڈ میں اینٹی بائیوٹک کی خاصیتیں ہوتی ہیں۔ لینن گراڈ
سے تعلق رکھنے والے بورس ٹوکن نے 1956 میں تجربہ کیا جس میں سپروس یا پائن کے درخت
کے سوئی نما پتوں کو پیس کر ایک چٹکی پانی کے قطرے میں ڈالی جس میں پروٹووا تھے۔
ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں تمام کے
تمام پروٹوزوا مر گئے۔ ٹوکن نے اپنے پیپر میں اس ریسرچ کو لکھا کہ پائن کے جنگل میں ان فائٹن سائیڈ کی وجہ
سے ہوا جراثیم سے تقریبا بالکل صاف ہوجاتی ہے، کیونکہ درخت اپنے اردگرد یہ سپرے
چھڑکتے رہتے ہیں۔
اخروٹ کے درخت کے پتوں کے کمپاؤنڈ کیڑوں سے اس قدر موٗثر طریقے سے ڈیل کرتے ہیں کہ
باغوں میں بیٹھنے والوں کے لئے اس کے نیچے بیٹھنا بہترین مقام ثابت ہوتاہے جہاں پر کیڑے یا مچھر نہیں پھٹکتے۔
جنگل میں آنے والی خاص طرح کی قدرتی مہک
انہی فائٹن سائیڈ کی ہوتی ہے جو کونیفر کے جنگل میں سب سے زیادہ آتی ہے۔
ان درختوں کے پتے فضا میں
سے ذرات، جیسا کہ دھواں اور مٹی کو فلٹر کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کا سطحی رقبہ
زیادہ ہے اور یہ ذرات ان کے پتوں میں پھنس کر فضا سے نکل جاتے ہیں۔ یہ میٹیریل بیس
ہزار ٹن فی مربع میل فی سال تک ہو سکتا ہے۔ باغ اور گھاس والے علاقے ایسا نہیں کر
سکتے کیونکہ سطحی رقبے میں فرق بہت زیادہ ہے۔ درختوں کے انواع سے نکلنے والے
کیمیکلز اپنی اپنی طرح کے ہیں۔ یہ غیرشعوری طور پر ہم پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
اگر کبھی جنگل کی فضا میں سیر یا کوئی فزیکل ایکٹیویٹی کی ہو تو
آپ نے خود واضح فرق محسوس کیا ہو گاکہ جنگل کی تازہ ہوا ان درختوں کے موڈ کی
بنائی ہوئی ہے۔ پرانے جنگل میں “خوش” درختوں میں ہم پر ہونے والا یہ اثر مصنوعی
جنگلوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس پر کوریا میں معمر خواتین پر سٹڈٰی کی
گئی۔ سیر کے دوران ان کے جسمانی سگنل، جیسا کہ بلڈ پریشر، پھیپھڑوں کی کیپیسیٹی،
شریانوں کی الاسٹیسٹی وغیرہ کو مانیٹر کیا گیا۔ پرانے جنگلوں میں شہر کے مقابلے
میں فرق واضح تھا۔ شاہ بلوط کے پرانے جنگل میں بڑھا ہوا بلڈ پریشر نیچے کو آ جاتا
ہے۔ یقین نہیں آتا؟ یہ تجربہ خود کر کے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح کے جنگل
میں آپ خود کو زیادہ پرسکون محسوس کرتے ہیں۔
دن میں ایک درخت اتنی آکسیجن خارج کر سکتا ہے جو دس ہزار لوگوں کی
روز کی ضرورت کے لئے کافی ہوتی ہے۔ جنگل میں ہونے والے فرحت بخش احساس کی یہ وجہ
نہیں کیونکہ مقامی جگہ پر تناسب میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ رات کے وقت یہ ایسا نہیں
کرتے لیکن رات کو بھی جنگل خوشگوار احساس ہی دیتا ہے۔
جس طرح یہ فائٹن سائیڈ درختوں کے لئے مفید ہیں، کیا ہمارے امیون
سسٹم کے لئے بھی؟ یا پھر محفوظ جنگل میں دوسرے کسی کیمیکل اور درختوں کی آپس کی
باتوں کے ساتھ ہمارے پرسکون ہو جانے کی وجہ ہمارے کروڑوں برس پرانی نفسیات ہے؟
ہمیں اس کا علم ابھی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنوعی روشنیوں نے جہاں ہماری نیند میں خلل ڈالا ہے اور بے خوابی
زیادہ کر دی ہے، ویسے ہی درختوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اس پر جرمنی میں ہونے والی سٹڈی نے
1981 میں پتا لگایا کہ جو درخت مصنوعی
روشنیاں کا شکار رہتے ہیں، وہ جلد بیمار ہو جاتے ہیں اور امریکہ میں شہروں میں شاہ
بلوط کے درختوں کی اموات کی وجہ ان کی نیند کے سائکل میں روشنیوں کی وجہ سے پڑنے
والا خلل ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ درخت
ہماری زندگیوں میں اور ہم ان کی زندگیوں میں مخل ہو رہے ہیں جس سے ایک بڑے نقصان
کی وارننگ دی جاسکتی ہے۔
Trees and fresh air, trees, fresh air, urduworld.info
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments