یہ آرٹیکل تین حصوں میں منقسم ہے؛
1۔ آرٹیفشل انٹیلی جینس اور ورچؤل ورلڈ
2۔ فیثا غورث کے احوال اور فلسفے
3۔ فلسفہ برائےذہن اور دماغ اور ذہن اور جسم
1۔ آرٹیفشل انٹیلی جینس اور ورچؤل ورلڈ
کچھ طاقتیں دنیا کے تمام انسانوں کو centralize system کے تحت خطرناک حد تک کنٹرول کرنا چا ہتی ہیں ،میرے خیال میں Human Automation کی اصطلاح کا استعمال کرنا ذیادہ صحیح رہیگا۔جس کا ، فی ذمانہّ ایک اور واحد ذریعہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی ایجاد ہے۔کچھ محققین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی ایجاد کے بعد اب کوئی بھی ایجاد بے معنی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ایجاد انسان کی آخری ایجاد ہو کیونکہ طب سے لیکر خلائی سائینس تک اس کا انتہائی طور پر استعمال کر کے اس ٹیکنالوجی نے اپنا لوہا منوالیا ہے۔مگر ان سب تطبیقوں کے بعد باری اب انسانوں پر تجربہ کرنے کی ہے جس کی یہ طاقتیں بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں، اور ایلون مسک کی "نیورالنک چپ"بھی اسی فتن کی ایک کڑی ہے۔ کیونکہ انسانی دماغ میں انجیکٹ کرنے کے بعد اسیchip کے ذریعے سے انسانوں کی تمام تر سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائیگی۔ فرعوِ ن مصر کے ذمانے میں اور ہمارے اس ذمانے میں غلامی کا کوئی فرق باقی نہیں رہیگا۔ جو فرق ہوگا وہ اتنا ہوگا کہ فرعونِ مصر کا دائرہ صرف اپنے خطے تک تھا اور اس کا دائرہ کار انتہائی طور پر وسیع و عریض ہوگا جسے آپ ورلڈ وائیڈ ویب کے نام سے بھی سرچ کراسکتے ہیں۔
آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو مصنوعی کمانڈ اوردیگر مشین لینگویج کے ذریعے تشکیل دیا جاتا ہے اور گوگل کے لامڈا سسٹم کے مطابق انھونے کم سے کم ایسے روبوٹ کی تشکیل تو کر ہی دی ہے جس میں احساسات اور جذبات پائے جاتے ہیں، جس کو ہالی وڈ نے بھی انتہائی کمال ہوشیاری کے ساتھ "ہر" نامی فیچر فلم میں دنیائے عالم کے انسان کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ "کیا ہوگا اگر ہم اپنا لیپ ٹاپ بند کردیں" اور اس کے ساتھ ساتھ روح اور جسم پر مبنی فلم آئینسٹائن کے نظریہ "آئینسٹائن گاڈ ماڈل" کو لے کر عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں ۔
انھیں قوتوں کے بنائے ہوئے دنیا کے امیر ترین اشخاص باطل ایجنڈوں پر کام کر رہے ہیں اور بہانے بنا بنا کر رو دھو کر عوام النّاس کو اس بات پر تیار کر رہے ہیں کہ وہ وقت اب دور نہیں ہے جب تم سب انسان ایک بٹن کے کنٹرول میں آجاؤگے، سائینسدان غلط کر رہے ہیں انھیں ایسا نہیں کرنا چاہئیے وغیرہ وغیرہ جیسے آرگومینٹ دے کر عوام کو سوائے بیوقوف بنانے کے اور کچھ نہیں۔
دوسری طرف یہی باطل قوتیں اسی کے ساتھ ساتھ ورچؤل ورلڈ کا نظریہ دے کر انسانوں کو ذومبی بنانے کی کامیاب کوششوں میں سرکرداں نظر آتے ہیں۔
ورچؤل ورلڈ کیلئے گیم کی صورت میں ایک مکمل مثالی دنیا بنائی جاتی ہے، جس میں جانے کے بعدکوئی بھی انسان وہاں سے حقیقی دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا اور کریگا بھی کیوں جب کہ اس دنیا میں کسی بھی قسم کی قوانین کی پاسداری ضروری نہیں ہوتی۔
اس سے بھی چونکا ددینے والی بات کہ جواطمنان بخش لینگویج ان ورچؤل گیم کیلئے استعمال کی جاتی ہے ان قوتوں نے اس کا نام "پائیتھون" رکھا ہے جو ایک یونانی فلاسفر پیتھا گورس کے نام پر ہے۔ پیتھا گورس کے بارے میں اجمالی طور پر نیچے ذکر کیا گیا ہے قارئین حضرات مطالعہ کرسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پیتھا گورس ہی کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پیتھاگورس نے اپنی مشہور "مساواتِ تثلیث "کے ذریعے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ روح کو دوسرے اجسام میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اور عقل ، روح اور مادہ یہ تینوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
مگر مادے میں عقل کو رکھا جاتا ہےجو اپنے ڈیٹا کو اکھٹا کرکے جسم کی افزائش کرتا ہے اور روح اس جسم کی موت کے بعد عقل کے ڈیٹا کو جو اس نے دنیا میں رہ کر اپنے آرکائیو میں اسٹور کئیے تھے لیکر کسی اور نامعلوم مقام پر منتقل ہوجاتا ہے۔ایک اور بات جو اس نے کی وہ یہ کہ اگر انسان کے پاس کچھ ایسی تکنیک آجائے جس سے وہ دوسر ے انسان کی عقل پر دسترس حاصل کرلے تو اس کے ڈیٹا کو انسان کے علاوہ کسی اور جاندار میں بھی اسٹور کر کے اسے کتا بلی یا کچھ بھی بنایا جاسکتا ہے جب ایسا ہوجائیگا تو پھر اس جیسا دوسرا انسان بنانے یا کوئی دوسری مخلوق بنانے میں کسی قسم کی دقت پیش نہیں آسکتی۔
فیثا غورث مساوات پر توجہ دیجئیے
انسان = عقل+روح+جسم
اس میں سے اگر عقل کو ہیک یا نفی کرلیا جائے تو مساوات کچھ اس طرح سے بنے گی
نئی مخلوق = (روح+جسم)-عقل
اور یہ نئی مخلوق جدید ٹیکنالوجی کی اصطلاح میں "ذومبی" کہلائے جاتی ہے۔جس کے پاس صرف جسم اور روح ہوتا ہے جبکہ عقل کسی اور کے کنٹرول میں چلے جاتی ہے۔
ہالی وڈ نے ذومبی کا جو نقشہ عام انسانوں کو دکھایا ہے اس سے تو وہ کوئی ڈریکولا معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں اس کے پسِ پردہ راز کیا ہے اس کا نقشہ میٹا ورس اور موبائیل ٹیکنالوجی کی جدید ایپلی کیشنز کی صورت میں انسانوں سے ڈھکا چھپا نہیں، اور اس کے نتائج دیکھ کر آپ کو ویسا ہی لگے گا جیسے لوگ اپنی مرضی سے ذومبی ورلڈ میں قدم رکھنا چاہتے ہوں، بعینہِ ایسا لگ رہا ہے جیسا سب کچھ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہو۔
میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ چونکہ پیتھا گورس کا ذمانہ حضرت عیسیٰؑ کے ذمانے کے قریب قریب ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کو ایک معجزہ اللہ کے حکم سے مردے کو ذندہ کرنا بھی تھا۔ اسلئے اس بات کا بھی قوی احتمال ہے کہ ہوسکتا ہے اس وقت یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدایش سے پہلے روح پران فلاسفروں نے کام کیا ہو ، پائیتھا گورس کے اس کام میں ہندوستان کے بت پرست عقیدے کے لوگ بھی شامل تھے جس سے متاثر ہوکر اس نے بہت سے ایسے قوانین بنائے جو آج بھی ہندوؤں میں پائے جاتے ہیں۔اس حوالے سے میں نے تفصیل سے نیچے ذکر کیا ہے آپ مطالعہ کرسکتے ہیں۔
وقت کی قلت کی وجہ سے آج یہاں تک ، اگلے کالم میں انشاء اللہ، اللہ نے چاہا تومزید وضاحت سے اس پر بات ہوگی۔ کچھ ویڈیوز کو یہاں شئیر کرانے کا مقصد بھی یہی ہے اپنے تئیں ریسرچ کرسکے اپنے اعمال اور اپنی رعیت سے منسلک اشخاص کونا صرف سیدھے راستےپر چلنے کی ہدایت کرنی ہے بلکہ اس دورِ فتن کے نمونوں سے بھی انفارمیشن کی آگاہی دیجئیے اس کالم کو ذیادہ سے ذیادہ شئیر کر کے بھی اس نیکی میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔
پائتھاگورس
پائتھاگورس پہلا فلسفی تھا جس نے 'فلسفہ' یا 'حکمت کی محبت' کے بارے میں بات کی۔ اس نے ایک فلسفیانہ کمیونٹی قائم کی جہاں اس نے روحوں کی منتقلی، اور کائنات کی تفہیم کے لیے ریاضی کی مرکزیت کے گر سکھائے۔
زندگی
پائتھاگورس 570 قبل مسیح کے کچھ عرصے بعد ساموس جزیرے پر پیدا ہوا۔ کچھ اکاؤنٹس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی ابتدائی زندگی کے دوران مصر، بابل اور فارس تک وسیع پیمانے پر سفر کیا، اور اس کا اثر ان کی فلسفیانہ ترقی پر پڑ سکتا ہے۔ دوسری کہانیوں میں کہا گیا ہے کہ اس نے بیس کی دہائی کی عمر میں میلٹس میں تھیلس اور انیکسی مینڈر دونوں کا دورہ کیا۔ یہ تمام کہانیاں سچ ہو سکتی ہیں، لیکن ہم یقینی طور پر ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
ہم کیا جانتے ہیں کہ تقریباً 530 قبل مسیح، اس نے یونانی شہر کروٹن کا سفر کیا جو کہ موجودہ اٹلی میں ہے۔ اور وہیں آباد ہوئے اور اپنا فلسفیانہ اسکول قائم کیا۔ پائتھاگورس نے تیزی سے کروٹن میں ایک بڑی فولوشپ حاصل کی، اور شہر کی زندگی پر ایک اہم اثر بن گیا۔
کیا
پائیتھا گورس عیسائی تھا؟
عیسائیت کی بنیاد پائیتھاگورس
کی موت کے تقریباً 400 سال بعد ہوئی۔ اگر آپ پائتھاگورس کا فلسفہ پڑھیں تو آپ کو معلوم
ہوگا کہ وہ ہندوستانی سمکھیان مکتبہ فکر سے بہت زیادہ متاثر تھا اور بدھ مت اور جین
مت سے بھی۔
ان کے کچھ نظریات جو ہندوستانی فلسفے سے میل کھاتے ہیں یہ ہیں:
وہ روحوں کی منتقلی پر یقین رکھتا تھا، یہ تصور مغربی دنیا کے لیے اجنبی ہے۔
زیر زمین اگنے والے پودوں کو نہ کھانے کی وجوہات (جین عقیدہ)
مذہبی اور فلسفہ بدھ مت سے قریب تر ہے۔
انتہائی ایماندارانہ فیصلوں کی یقین دہانی کے لیے ججوں کو مقدمے کی سماعت سے پہلے گوشت کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
صوفیانہ قیاس آرائیوں
پر اس کے مشمولات اپنشدوں میں لکھے گئے مشابہ سے ملتے جلتے ہیں۔
پانچ عناصر مادے کی تشکیل کرتے ہیں (زمین، آسمان، آگ، پانی، ہوا)
پودوں کی دواؤں کی خصوصیات
(آیوروید) اور رنگ، وائبریشن ، موسیقی، جڑی بوٹیوں وغیرہ کے استعمال سے کیسے ٹھیک کیا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ ہندوستان
کے دورے کے دوران، انہوں نے مختلف ہندوستانی فلسفوں کے بارے میں علم اکٹھا کرنے کے
لیے مختلف مقامات کا دورہ کیا اور ان تمام کو مغرب میں پیش کیا، جن میں سے چوری شدہ
"hypotenuse" تھیوریم پوری دنیا میں پائیتھاگورس تھیوریم کے نام
سے مشہور ہے۔
یہ دعویٰ ہندوستانیوں
نے نہیں کیا ہے۔ اس ویڈیو میں، آپ کو بہت سے مغربی مصنفین اور قدیم یونانی
فلسفیوں کے حوالے ملیں گے جو کھلے عام تسلیم کرتے ہیں کہ پائتھاوگورس نے اپنے نظریات
کو ہندوستانی صحیفوں میں چرایا تھا۔
رازداری اور خاموشی
پائتھاگورین اسکول ایک مذہبی کمیونٹی کی طرح کام کرتا تھا، جو سخت قوانین اور رازداری کا پابند تھا۔ پائتھاگورین کمیونٹی میں داخلہ مشکل تھا، کیونکہ اس میں پانچ سالہ خاموشی کا عہد کرنا بھی شامل تھا، جس کا مطلب تھا کہ وہ پانچ سال تک جو بھی اس اسکول سے سیکھیں گے اسے وہ کسی کو بھی نہیں بتائینگے۔
واضح طور پر یہ کہنا خاصہ مشکل ہے کہ ابتدائی پانچ سال پائیتھاگورینس اپنے شاگردوں کو کیا سکھاتا تھا ۔ وہ انھیں ابتدائی پانچ سال گوشت سے دور رکھتا تھا اور زیادہ تر سبزی پر گزارا کراتا تھا ، اور انتہائی سادگی کی حالت میں رہتے تھے۔ قابل اعتماد اکاؤنٹس کے علاوہ دیگر یہ کہتے ہیں کہ پائتھاگورس نے اپنے شاگردوں کو پھلیاں کھانے سے بھی پرہیز کرایا کیونکہ اس کے خیا ل میں پھلیاں نرم اور کچھ گوشت دار تھیں - پائتھاگورس نے دلیل دی کہ وہ نا صرف جاندار ہیں بلکہ ان میں روحیں بھی پائی جاتی ہیں۔
Pythagoreans کا اقتدار
اپنی تمام تر رازداری کے لیے، پائتھاگورین کمیونٹی میں تیزی سے اضافہ ہوا، اور یہ کرٹن کی سیاسی زندگی کے لیے اہم ہو گیا۔ پائتھاگورین کمیونٹی کے بہت سے ارکان پورے جنوبی اٹلی میں سیاسی طاقت کے عہدوں پر فائز ہوئے۔ اور Pythagorean کو پڑوسی شہر Sybarites پر کروٹن کی فوجی فتح میں کردار ادا کرنے، ان کے نظم و ضبط اور توجہ کی وجہ سے کرٹن کی ریاست کو مشہور طور پر سست سائبرائٹس پر قابو پانے میں مدد کرنے کا سہرا دیا گیا ۔
لیکن سیاسی طاقت ہمیشہ قیمت کے ساتھ آتی ہے۔ اور جیسے ہی پائتھاگورین اقتدار میں آئے، انہوں نے دشمنوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ بعد کے اکاؤنٹس پائتھاگورین کمیونٹیز کے خلاف بغاوتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پائتھاگورس خود کرٹن سے فرار ہو گیا تھا اور موجودہ اٹلی کے بالکل جنوب میں واقع شہر میٹاپونٹم میں جلاوطنی اختیار کر لی تھی ۔
بعض روایتوں کے مطابق ان کی وفات یہیں ہوئی۔ اس کے دشمنوں نے اس کا تعاقب میٹاپونٹم تک کیا، اور پھر انہوں نے پھلیوں کے کھیت کے کناروں تک اس کا تعاقب کیا۔ پھلیاں کو روندنا نہیں چاہتے تھے، اور بہت سی روحوں کو تباہ کرنے کے لیے، پائتھاگورس نے موت کا انتخاب کیا۔ یہ کہانی، اگرچہ عجیب ضرور ہے ، مکمل طور پر قابل فہم نہیں ہے۔
فلسفہ
پائتھاگورس پہلا فلسفی تھا جس نے فلسفہ (φιλοσοφία) یا 'حکمت کی محبت' کے بارے میں بات کی۔ حکمت سے محبت کرنے کا خیال ہمارے اور حکمت کے درمیان فاصلہ رکھتا ہے: اگر ہم حکمت سے محبت کرتے ہیں، تو یہ بالکل اس لیے ہے کہ ہم عقلمند نہیں ہیں (ڈیوٹیما پر فلاسفر فائل بھی دیکھیں)۔ خاص طور پر دو نظریات پائیتھاگورین حکمت کے حصول سے وابستہ ہیں:
1۔ روحوں کی منتقلی کا خیال؛
2۔ اور یہ خیال کہ اعداد کسی نہ کسی طرح حقیقت کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
سفر کرنے والی روحیں
پائتھاگورس کی مخصوص تعلیمات میں سے ایک روح کی منتقلی تھی۔ دوسرے الفاظ میں، روح ایک ایسی چیز ہے جو موت سے باہر موجود ہے، اور یہ دوسرے جسموں میں دوبارہ جنم لے سکتی ہے۔ پائیتھاگورس اور ایک کتے کے بارے میں ڈائیوجینس لارٹیئس کی ایک مشہور کہانی ہےکہ ایک دن، ایک فلسفی کو دیکھا کہ کسی کتے کو بلا وجہ مار رہا ہے پائتھاگورس نے مداخلت کی اور آدمی کو سختی کے ساتھ رکنے کو کہا۔ اس نے بتایا کہ کتے کی چیخوں میں اس نے اپنے ایک فوت شدہ دوست کی آواز کی پہچان کی ہے۔
بعد میں یونانی مفکرین نے روح کی واپسی مصر میں منتقلی کے اس خیال کا سراغ لگایا۔ اور یہ پائتھاگورس کے جوانی کے سفر کے کچھ ثبوت فراہم کر سکتا ہے۔ یہ ایک خیال ہے جو افلاطون کے کام میں دوبارہ ظاہر ہوتا ہے، حالانکہ وہ پائتھاگورس کو بطور ماخذ پیش نہیں کرتا ہے۔ اور اگرچہ روح کی منتقلی کا خیال پائتھاگورس اور افلاطون کے بعد نہیں آیا ، لیکن اس نے مغربی فلسفیانہ روایات کو زیادہ لطیف طریقوں سے متاثر کیا تھا۔ کیونکہ اگر روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوسکتی ہے - جیسا کہ پائتھاگورس اور افلاطون دونوں نے استدلال کیا تھا تو اس کا صاف مطلب ہے کہ جسم اور روح، اصولی طور پر، دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور جسم اور روح کی علیحدگی کا یہ خیال فلسفہ کی ان روایات میں صدیوں سے قائم ہے جو ان کی ابتدا قدیم یونان سے کرتی ہیں۔
نمبرز
نمبر Pythagorean فلسفہ میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ آج بھی پائیتھاگورس اپنے نمبر والے نظریہ کے لیے خاص طور پر مشہور ہے: مثلث کے وتر کا مربع دوسرے دو اطراف کے مربعوں یعنی عمود اور وتر کے مربعوں کے مجموعے کے برابر ہے۔ مزید حالیہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہندوستان اور بابل دونوں میں پہلے سے ہی مشہور تھا، اور یہ کہ یہ خیال پائتھاگورس سے 1000 سال پہلے ہی آچکا تھا ۔ اس لیے پائیتھاگورس کو اس کی دریافت کا سہرا نہیں دیا جا سکا۔
پائتھاگورینس بھی اس خیال سے وابستہ تھے کہ کائنات مجموعی طور پر اعداد سے جڑی ہوئی ہے۔ ارسطو، نے لکھا ہے کہ:
ان کے لیے [پتھگورینس] پوری کائنات اعداد سے بنی ہے۔
- ارسطو، مابعدالطبیعات
لیکن پائیتھاگورس کا اصل نظریہ شاید زیادہ لطیف تھا۔ تھیانو سے منسوب ایک ٹکڑا کہتا ہے کہ:
بہت سے یونانیوں کا خیال ہے کہ پائتھاگورس کے مطابق " ہر چیز اعداد سے ملکر بنی ہے۔" یہ بیان خود ایک سوال پیدا کرتا ہے۔ جو موجود نہیں ہے وہ سوچ اور دوبارہ کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ ہر چیز عدد سے ماخوذ ہے، بلکہ ہر چیز عدد کے مطابق پیدا ہوتی ہے، کہ بنیادی ترتیب تعداد میں ہے یعنی کائنات کی ہر چیز ایک خاص عددی تناسب میں موجود ہے۔
اگر یہ حوالہ مستند ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ارسطو نے پائتھاگورس کو غلط کہا تھا۔ ایسا نہیں ہے جیسا کہ ارسطو کا دعویٰ ہے کہ ہر چیز اعداد سے بنتی ہے۔ تھیانو تسلیم کرتا ہے کہ اپنے آپ میں نمبر دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی کچھ تخلیق کر سکتے ہیں۔ اس کے بجائے، وہ استدلال کرتی ہے کہ دنیا میں ایک ریاضیاتی باقاعدگی بہرحال ہر وقت موجود رہتی ہے۔
یہ ایک ایسا خیال ہے جو پائتھاگورس کے زمانے سے لے کر ڈھائی ہزار سالوں میں بے حد طاقتور رہا ہے۔
فلسفہ برائے دماغ اور جسم
تنقیدی نظریہ کہ دماغ اور جسم الگ الگ مادے ہیں
دوہرے پن کے حق میں: ڈیکارٹس کی قابل فہم دلیل
مادہ ایسی چیز ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی دوسری چیز پر منحصر نہیں ہوتی۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ دماغ جسم کے بغیر بھی قابلِ فعل ہو سکتا ہے۔ لہذا، یہ ممکن ہے کہ دماغ جسم کے بغیر موجود ہو. لہذا، دماغ اور جسم دو الگ الگ مادہ ہیں. دماغ سوچ کے سوا کچھ نہیں اسی طرح جسم توسیع کے سوا کچھ نہیں ہے اسی لئے دماغ اور جسم دونوں واضح طور پر بالکل الگ ہیں۔
دوہرے پن کے حق میں: ڈیکارٹس کی تقسیم کی دلیل
دماغ اور جسم دونوں میں میں مختلف خصوصیات پائی جاتی ہیں یعنی سوچ اور توسیع۔ اگریہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہوتے تو ان کی ایک جیسی خصوصیات ہوتیں۔
دماغ کے کوئی حصے نہیں ہوتے اور اسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا جبکہ جسم کے حصے ہوتے ہیں (جیسے ہاتھ اور بازو)۔ تو دماغ اور جسم دو الگ الگ قسم کی چیزیں ہیں۔
مادہ دوہرے پن کے خلاف: تعامل کا مسئلہ
آپ ذہنی اور جسمانی مادوں کے درمیان تعلق کی وضاحت کیسے کر سکتے ہیں؟ ذہنی حالتیں (غیر مادی) جسمانی رد عمل کا سبب کیسے بن سکتی ہیں
شعور کا آسان مسئلہ = شعور کے کام کا تجزیہ کرنا اور ختم کرنا جیسے حقیقت یہ ہے کہ ہم شعوری طور پر اپنے رویے پر قابو پا سکتے ہیں (چلمرز کے خیال میں یہ دماغ کے مطالعہ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور اس سے مادیت کو کوئی خطرہ نہیں ہے)
شعور کا مشکل مسئلہ = تاہم، جسمانی عمل کی کوئی وضاحت اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتی کہ شعوری تجربے سے گزرنا کیسا ہوتا ہے
مادیت پسندوں کا کہنا ہے کہ شعوری تجربات محض جسمانی تجربات ہیں لیکن چلمرز کا کہنا ہے کہ اس طرح کی وضاحت اس تجربے سے گزرنے میں کیسا محسوس کرتی ہے (مثلاً پیلے رنگ کو دیکھنے کا تجربہ)
: ہم شعور کے مشکل مسئلے کو کیسے حل کر سکتے ہیں
دیکھیں کہ مادہ (جسمانی) کی صرف ایک قسم ہے لیکن یہ جسمانی (دماغ میں کیمیائی اور غیر جانبدار سرگرمی) اور ذہنی خصوصیات (جذبات، شعور) دونوں کے قابل ہے اور ذہنی خصوصیات جسمانی واقعات کا سبب بن سکتی ہیں۔
زومبی آرگیومینٹ – پراپرٹی ڈوئل ازم کے حق میں
زومبی - = تجرباتی شعور کے بغیر کسی شخص کی عین جسمانی نقل
ایک جیسی جسمانی خصوصیات لیکن مختلف ذہنی خصوصیات
زومبی حقیقی دنیا میں ممکن نہیں ہیں لیکن ایک مختلف ممکنہ دنیا میں موجود ہوسکتے ہیں
(مابعد الطبیعاتی خصوصیات)
یہ بحث کرنا کہ زومبی ممکن ہیں یہ بحث کرنا ہے کہ پراپرٹی ڈوئل ازم سچ ہے۔ یہ دلیل دیتا ہے کہ شعور کی خصوصیات جسمانی خصوصیات نہیں ہوسکتی ہیں۔
زومبی کا خیال اس حد تک قابل فہم ہے کہ اس خیال میں کوئی واضح تضاد نہیں ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ زومبی مابعدالطبیعاتی طور پر ممکن ہیں۔ اگر شعور جسمانی خصوصیات کے ساتھ یکساں ہوتا تو زومبی کا تصور کرنا ناممکن ہوتا۔ یہ لیبنِٹز کا آئیڈینٹیکلز کی ناقابل فہمی کا اصول ہے (یعنی اگر وہ ایک جیسے ہوتے تو ان میں ایک جیسی خصوصیات ہوتی)۔ لہذا جائیداد کی دوہرایت سچ ہے۔
نتیجہ
• شعور حقیقی ہے۔
• ہوش کی حالتیں صرف دماغی عمل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
• دماغ میں شعور کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔
• یہ وجوہات کی بنیاد پر کام کرتا ہے اور
· ذہنی وجوہات جسمانی اثرات کا باعث بنتی ہیں۔
مادہ دوہری ازم اور مادیت substance dualism and materialism دونوں ہی کچھ سچ کہہ رہے ہیں۔ دوہری ازم یہ کہنا درست ہے کہ شعور حقیقی ہے، تاہم، یہ ذہن اور دماغ کے درمیان کارآمد ربط کی وضاحت کرنے میں ناکام رہتا ہے اگر وہ الگ الگ مادے ہوتے۔ مادیت پرستی کا یہ کہنا درست ہے کہ ذہن اور دماغ کے درمیان ایک عام تعلق ہے۔ تاہم، اس کی مضبوط شکل میں، شعور کے وجود سے انکار کرنا غلط ہے۔ لہذا، یہ دلیل دی گئی ہے کہ پراپرٹی کی دوہرایت دماغ اور جسم کے مسئلے کا سب سے خوبصورت حل ہے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments