![]() |
Beyond the Brain |
2007 میں
فرانس میں، ایک 44 سالہ شخص ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے اپنی ٹانگ میں سنسناہٹ کی
شکایت کی اور دماغ کا سی ٹی اسکین کروایا جس سے ایک چونکا دینے والی حقیقت سامنے
آئی۔اس شخص کے دماغ کا 90 فیصد حصہ موجود ہی نہیں تھا۔ اس کی کھوپڑی تقریباً مکمل
طور پر دماغی ریڑھ کی ہڈی کے مائع سے بھری ہوئی تھی اور دماغ کا صرف ایک پتلا
بیرونی حصہ کھوپڑی کے گرد بچا تھا۔
اس کے
باوجود، اس شخص کی آئی کیو اوسط سے کم (75) ہونے کے باوجود وہ کئی سالوں سے ایک
نارمل زندگی گزار رہا تھا۔ وہ شادی شدہ تھا، اس کے دو بچے تھے، ایک نوکری تھی، اور
وہ اپنی ذات سے پوری طرح واقف تھا۔ وہ حرکت کرتا، ہنستا، محبت کرتا اور بالآخر
زندگی گزارتا تھا۔
یہ کیس
دنیا بھر کے سائنسی حلقوں کو حیران کر گیا اور اسے معزز جریدے 'لانسیٹ' میں شائع
کیا گیا، جس نے کئی سوالات اور حیرتوں کو جنم دیا۔ یہ حقیقت واضح طور پر شعور اور
انسانی ذات کی آگاہی کے تصور پر سوالات اٹھاتی ہے، اور یہ بھی کہ ایک انسان بغیر
دماغ کے کیسے نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔مریض کی طبی تاریخ کی جانچ سے پتا چلا کہ
وہ پیدائشی طور پر ہائیڈروسفالس نامی بیماری کا شکار تھا۔ اس وجہ سے، اس کی زندگی
کے ابتدائی مہینوں میں اس کی کھوپڑی میں ایک شانت ڈالی گئی تاکہ اضافی دماغی مائع
کو نکالا جا سکے۔ 14 سال کی عمر میں وہ شانت ہٹا دی گئی، اور ابتدائی مسائل کے
بعد، جس میں اس کی بائیں ٹانگ میں فالج کے اثرات شامل تھے، مریض ایک نارمل زندگی
گزارنے کے قابل ہوگیا اور اس مسئلے کو مکمل طور پر بھول گیا۔
آنے
والے 30 سالوں میں، مائع نے دوبارہ اس کی کھوپڑی پر قبضہ کرنا شروع کیا اور آہستہ
آہستہ دماغ کو 90 فیصد تک ختم کر دیا، جس کی وجہ سے اسے ٹانگ میں کمزوری محسوس
ہوئی اور اس کے باعث اس نے 44 سال کی عمر میں دوبارہ معائنہ
کروایا۔ لیکن یہ سب اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا کہ دماغ نے کیسے خود کو دوبارہ
ترتیب دیا اور اس شخص کو نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنایا۔
بیلجیم
کے یونیورسٹی لائبری آف برسلز کے ماہر نفسیات ایکسل کلیرمنز نے 2016 میں بویونس
آئرس میں منعقدہ 'ایسوسی ایشن فار سائنٹیفک اسٹڈیز آن کانشیسنس' کے ایک کانفرنس
میں ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی۔کلیرمنز کے مطابق، اس مریض کا کیس انسانی
دماغ کی غیر معمولی "دوبارہ ترتیب دینے کی صلاحیت" کو ظاہر کرتا ہے۔
دماغ کے سامنے والے، پارئیٹل، وقتی اور پچھلے لوبز اہم علمی اور شعوری افعال کی
نگرانی کرتے ہیں، لیکن اس مریض میں یہ تقریباً مکمل طور پر غیر موجود تھے، اور اس
نے ثابت کیا کہ اس شخص کا دماغ - اور ہر انسان کا دماغ - ان افعال کو دماغ کے باقی
ماندہ 10 فیصد حصے میں منتقل کرنے کے قابل
تھا۔
دوسری صلاحیت جو اس کیس میں ظاہر ہوئی وہ دماغ کی "لچکداریت" تھی۔ کلیرمنز کے نظریے کے مطابق، "ذاتی آگاہی" تجربے، اپنے اور ماحول کے درمیان تعلقات اور سیکھنے سے پیدا ہوتی ہے، اور زندگی کے دوران مسلسل تبدیلیوں اور ترمیمات کے تابع ہوتی ہے۔ اس 44 سالہ فرانسیسی شخص کا کیس، جو 90 فیصد دماغ کے بغیر نارمل زندگی گزار رہا تھا، سائنس کے لئے ایک نیا چیلنج تھا، جس نے ثابت کیا کہ صرف 10 فیصد دماغی ٹشو ایک "نظریہ ذات" کو تیار کرنے اور انسان کو ہر لحاظ سے مکمل انسان بنانے کے لئے کافی ہے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments