کراچی میں ڈینگی، ملیریا اور سانس کے امراض
میں اضافہ: ایک سنگین مسئلہ اور اس کے حل
تعارف: کراچی میں حالیہ
بارشوں کے بعد شہر میں ڈینگی، ملیریا اور سانس کے امراض میں خطرناک اضافہ دیکھنے
میں آیا ہے۔ جیسے ہی مون سون کا سیزن ختم ہوتا ہے، ان بیماریوں کے پھیلاؤ میں تیزی
آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ عوامی
صحت کے یہ مسائل نہ صرف جسمانی تکلیف کا باعث بنتے ہیں بلکہ ہسپتالوں پر بھی دباؤ
بڑھا دیتے ہیں۔ ان بیماریوں سے بچاؤ اور علاج کے لیے بروقت اقدامات اٹھانا ضروری
ہے۔
ڈینگی
اور ملیریا: بیماریوں کا جائزہ ڈینگی اور ملیریا دو اہم بیماریوں میں
شامل ہیں جن کا سامنا کراچی کے شہریوں کو حالیہ دنوں میں کرنا پڑ رہا ہے۔ دونوں
بیماریاں مچھروں کے ذریعے پھیلتی ہیں، لیکن ان کے علاج اور بچاؤ کے لیے مختلف
تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
1.
ڈینگی بخار: ڈینگی ایک وائرل بیماری ہے جو ایڈیز ایجپٹی
نامی مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، جسم میں درد، جوڑوں
میں سوزش، اور پلیٹ لیٹس کی کمی شامل ہیں۔ ڈینگی بخار کے مریضوں کو خون کی کمی اور
پلیٹ لیٹس کے کم ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات یہ مرض جان لیوا
بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
2.
ملیریا: ملیریا ایک پرازائٹک بیماری ہے جو انوفیلس مچھر کے
کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، کپکپی، سردرد اور پسینہ آنا شامل
ہیں۔ ملیریا کی صحیح اور بروقت تشخیص نہ ہونے کی صورت میں مریض کی صحت میں بگاڑ آ
سکتا ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی کمزوری اور بعض اوقات موت کا خدشہ ہوتا ہے۔
کراچی
میں بیماریوں کے پھیلاؤ کی وجوہات
کراچی
میں ڈینگی اور ملیریا کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں نکاسی آب کے مسائل، گندگی، اور
مچھروں کی افزائش کے لیے موزوں ماحول شامل ہیں۔ بارشوں کے بعد شہر میں پانی جمع ہو
جاتا ہے جو مچھروں کی پیدائش کے لیے ایک مثالی ماحول فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ،
شہری علاقوں میں صحت و صفائی کے ناکافی انتظامات اور شہریوں کی لاپرواہی بھی ان
بیماریوں کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ڈینگی
سے بچاؤ کے گھریلو طریقے: ڈینگی بخار سے بچاؤ کے لیے مختلف گھریلو
علاج اور ٹوٹکے مقبول ہیں۔ اگرچہ ان ٹوٹکوں کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں، لیکن
بعض افراد نے ان سے مثبت نتائج حاصل کیے ہیں۔
1.
ناریل کا تیل:
ڈینگی
مچھر زیادہ اونچائی پر نہیں اڑتا، اس لیے ناریل کا تیل گھٹنوں سے نیچے لگانے کی
تجویز دی جاتی ہے تاکہ مچھروں سے بچا جا سکے۔ یہ تیل ایک اینٹی بائیوٹک تہہ کے طور
پر کام کر سکتا ہے۔
2.
سبز الائچی کا
استعمال:
بعض
لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر ڈینگی ہو جائے تو سبز الائچی کے بیج منہ میں رکھنا پلیٹ
لیٹس کی تعداد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ بیج بغیر چبائے منہ میں رکھنے
سے خون کے ذرات نارمل ہو جاتے ہیں۔
3.
پپیتے کے پتوں کا
رس:
پپیتے
کے پتوں کا رس شہد کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا ڈینگی کے مریضوں کے لیے مفید سمجھا
جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پلیٹ لیٹس کی تعداد تیزی سے بڑھتی ہے۔
4.
بکری کا دودھ اور
مائعات:
ڈینگی
بخار میں بکری کا دودھ اور کیوی، ناریل کا پانی، اور گلوکوز جیسے مائعات کا زیادہ
استعمال مریض کی صحت میں بہتری لا سکتا ہے۔
ڈاکٹر
کی رائے: گھریلو علاج اور سائنسی حقیقت یہ بات اہم ہے کہ
اگرچہ یہ گھریلو علاج عوامی سطح پر مقبول ہیں، لیکن طبی ماہرین کے نزدیک ان کا
کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں۔ ان طریقوں پر مکمل طور پر انحصار کرنے کے بجائے مریض
کو ڈاکٹر کی مدد حاصل کرنی چاہیے اور بروقت علاج کروانا چاہیے۔
ڈاکٹرز
کے مطابق:
1.
ڈینگی کی بروقت
تشخیص:
ڈینگی
کی علامات ظاہر ہوتے ہی فوراً قریبی اسپتال سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ بیماری کی
تشخیص اور علاج شروع کیا جا سکے۔
2.
پلیٹ لیٹس کا
باقاعدہ جائزہ:
ڈینگی
کے دوران پلیٹ لیٹس کی سطح کم ہونا عام بات ہے۔ اس لیے مریض کو باقاعدگی سے پلیٹ
لیٹس کی تعداد چیک کروانی چاہیے۔
3.
خون کے ٹیسٹ اور
مائعات کا استعمال:
ڈاکٹرز
مریض کو مائعات کی زیادہ مقدار پینے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ جسم میں پانی کی کمی
نہ ہو۔ کیوی، ناریل کا پانی، اور دیگر مائعات اس عمل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
4.
علاج میں تاخیر
نقصان دہ ہو سکتی ہے
ڈینگی
اور ملیریا جیسے امراض میں تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے بروقت علاج کے
لیے ماہرین سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
نتیجہ:
ڈاکٹر کی سفارشات
ڈینگی
اور ملیریا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر، ہر شہری کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی
ضرورت ہے۔ مچھروں سے بچنے کے لیے گھروں کے اندر اور باہر صفائی رکھنا، پانی جمع نہ
ہونے دینا، اور مچھر دانی یا اسپرے کا استعمال کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق گھریلو علاج وقتی طور پر مددگار ہو سکتے ہیں، لیکن کسی بھی سنگین علامت ظاہر ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ زندگی بچانے کے لیے بروقت اور درست علاج ہی بہترین حکمت عملی ہے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments