: ایک اہم پیغام خیر الناس من ینفع الناس۔ تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو بہترین انسان بنانا چاہتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جائے اور ان میں خیر بانٹنا شروع کردے۔ اور سب سے عمدہ چیز جو بانٹی جا سکتی ہے اور جس کے ذریعہ اوروں کو نفع پہنچایا جاسکتا ہے، وہ علم سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے جو پست کو بالا کرتی ہے۔ انسان کو فرشتوں پر جو شرف بخشا گیا اس کا بظاہر سبب علم کو ہی بنایا گیا۔ علم نافع کے حصول اور پھر اس پر مخلصانہ عمل کے ذریعہ سے ہی انسان اپنی راحتوں میں اضافہ اور اپنی سلامتی کو دوام بخش سکتا ہے، اور اپنی کھوئی ہوئی جنت کو دوبارہ سے پا سکتا ہے۔ یہ ہے وہ مقصد جس کے تحت یہ علمی پورٹل بنایا گیا ہے۔ کہ اس پورٹل کے توسط سے علم نافع کی ترویج کی داغ بیل ڈالی جائے۔ اس میں علم کی کسی خاص شاخ کی تخصیص نہیں بلکہ علم خواہ دینی ہو، خواہ سائنسی، خواہ عملی ہو خواہ نظری، اگر اس میں انسانیت کی فوز و فلاح ہے تو اس کو عام اور رائج کرنے میں کاوش کی جائے۔بے جا بحث، مسالکانہ کشاکش اور الحادی فکر کی ترویج کی بہرحال اس پورٹل پر کوئی گنجائش نہیں۔ ایسی ہر کوشش کی یہاں حوصلہ شکنی ہوگی۔مستقل قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ پورٹل کے علمی مقاصد کی تکمیل میں شامل ہوں اور اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو اور دوسروں کے علم و تجربہ سے خود کو مستفید کریں۔ اس کے لئیے جو حضرات بھی اپنے کالم کو اردو ورلڈ میں شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ اپنا کالم ہمیں ای میل کرسکتا ہے۔ ہمارے ای میل ایڈریس کے لئیے اوپررابطہ پر کلک کرکے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ جزاک اللہ۔ واسّلام
  مسنون تاریخوں کی افادیت اور حکمت خدا کی شان اور اسکی حکمت انسان پر کتنی مہربان ہے۔ انسان کے خون اور اس کے باقی اخلاط کا چاند کے ساتھ گہرا تعلق ہے جوں جوں چاند کی روشنی بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کا خون اور اس کے اغلاط جوش مارتے ہیں اور ابھرتے ہیں اسی لئے ہماری شریعت میں چاند کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کےحجامہ کو بہت نافع قرار دیا ہے۔ ان تاریخوں میں خون صفراء، سوداء بلغم اور دیگر اخلاط جوش میں ہوتے ہیں تب حجامہ کا مبارک عمل خون اور دیگر اخلاط میں سے بیماریوں کو چھانٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے پاس انسانی فطرت کے حوالے سے مکمل ہم آہنگ مسنون علاج موجود ہے جو کہ حجامہ کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے اور مسلمانوں کی تاریخ اور مہینہ بھی قمری ہے... اور قمری مہینے کی تاریخوں کا انسان کے جسم اور خون کے اتار چڑھاؤ سے گہرا تعلق ہے۔ حجامہ وسوسہ اور وہم دونوں روحانی امراض کا بہترین علاج کرتا ہے اس کے علاوہ الحمد للہ فالج سے لے کر کینسر‘ تک کے مریضوں کو اللہ تعالی نے حجامہ سے شفاء بخشی ہے۔

ڈینگی، ملیریا اور سانس کے امراض میں اضافہ

 



کراچی میں ڈینگی، ملیریا اور سانس کے امراض میں اضافہ: ایک سنگین مسئلہ اور اس کے حل

 

تعارف: کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد شہر میں ڈینگی، ملیریا اور سانس کے امراض میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جیسے ہی مون سون کا سیزن ختم ہوتا ہے، ان بیماریوں کے پھیلاؤ میں تیزی آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ عوامی صحت کے یہ مسائل نہ صرف جسمانی تکلیف کا باعث بنتے ہیں بلکہ ہسپتالوں پر بھی دباؤ بڑھا دیتے ہیں۔ ان بیماریوں سے بچاؤ اور علاج کے لیے بروقت اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔

 

ڈینگی اور ملیریا: بیماریوں کا جائزہ ڈینگی اور ملیریا دو اہم بیماریوں میں شامل ہیں جن کا سامنا کراچی کے شہریوں کو حالیہ دنوں میں کرنا پڑ رہا ہے۔ دونوں بیماریاں مچھروں کے ذریعے پھیلتی ہیں، لیکن ان کے علاج اور بچاؤ کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔

1.     ڈینگی بخار: ڈینگی ایک وائرل بیماری ہے جو ایڈیز ایجپٹی نامی مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، جسم میں درد، جوڑوں میں سوزش، اور پلیٹ لیٹس کی کمی شامل ہیں۔ ڈینگی بخار کے مریضوں کو خون کی کمی اور پلیٹ لیٹس کے کم ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات یہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

2.     ملیریا: ملیریا ایک پرازائٹک بیماری ہے جو انوفیلس مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، کپکپی، سردرد اور پسینہ آنا شامل ہیں۔ ملیریا کی صحیح اور بروقت تشخیص نہ ہونے کی صورت میں مریض کی صحت میں بگاڑ آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی کمزوری اور بعض اوقات موت کا خدشہ ہوتا ہے۔

 

کراچی میں بیماریوں کے پھیلاؤ کی وجوہات

کراچی میں ڈینگی اور ملیریا کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں نکاسی آب کے مسائل، گندگی، اور مچھروں کی افزائش کے لیے موزوں ماحول شامل ہیں۔ بارشوں کے بعد شہر میں پانی جمع ہو جاتا ہے جو مچھروں کی پیدائش کے لیے ایک مثالی ماحول فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، شہری علاقوں میں صحت و صفائی کے ناکافی انتظامات اور شہریوں کی لاپرواہی بھی ان بیماریوں کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

 

ڈینگی سے بچاؤ کے گھریلو طریقے: ڈینگی بخار سے بچاؤ کے لیے مختلف گھریلو علاج اور ٹوٹکے مقبول ہیں۔ اگرچہ ان ٹوٹکوں کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں، لیکن بعض افراد نے ان سے مثبت نتائج حاصل کیے ہیں۔

1.     ناریل کا تیل:
ڈینگی مچھر زیادہ اونچائی پر نہیں اڑتا، اس لیے ناریل کا تیل گھٹنوں سے نیچے لگانے کی تجویز دی جاتی ہے تاکہ مچھروں سے بچا جا سکے۔ یہ تیل ایک اینٹی بائیوٹک تہہ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔

 

2.     سبز الائچی کا استعمال:
بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر ڈینگی ہو جائے تو سبز الائچی کے بیج منہ میں رکھنا پلیٹ لیٹس کی تعداد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ بیج بغیر چبائے منہ میں رکھنے سے خون کے ذرات نارمل ہو جاتے ہیں۔

 

3.     پپیتے کے پتوں کا رس:
پپیتے کے پتوں کا رس شہد کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا ڈینگی کے مریضوں کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پلیٹ لیٹس کی تعداد تیزی سے بڑھتی ہے۔

 

4.     بکری کا دودھ اور مائعات:
ڈینگی بخار میں بکری کا دودھ اور کیوی، ناریل کا پانی، اور گلوکوز جیسے مائعات کا زیادہ استعمال مریض کی صحت میں بہتری لا سکتا ہے۔

 

ڈاکٹر کی رائے: گھریلو علاج اور سائنسی حقیقت یہ بات اہم ہے کہ اگرچہ یہ گھریلو علاج عوامی سطح پر مقبول ہیں، لیکن طبی ماہرین کے نزدیک ان کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں۔ ان طریقوں پر مکمل طور پر انحصار کرنے کے بجائے مریض کو ڈاکٹر کی مدد حاصل کرنی چاہیے اور بروقت علاج کروانا چاہیے۔

ڈاکٹرز کے مطابق:


1.     ڈینگی کی بروقت تشخیص:
ڈینگی کی علامات ظاہر ہوتے ہی فوراً قریبی اسپتال سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ بیماری کی تشخیص اور علاج شروع کیا جا سکے۔

2.     پلیٹ لیٹس کا باقاعدہ جائزہ:
ڈینگی کے دوران پلیٹ لیٹس کی سطح کم ہونا عام بات ہے۔ اس لیے مریض کو باقاعدگی سے پلیٹ لیٹس کی تعداد چیک کروانی چاہیے۔

3.     خون کے ٹیسٹ اور مائعات کا استعمال:
ڈاکٹرز مریض کو مائعات کی زیادہ مقدار پینے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو۔ کیوی، ناریل کا پانی، اور دیگر مائعات اس عمل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

4.     علاج میں تاخیر نقصان دہ ہو سکتی ہے
ڈینگی اور ملیریا جیسے امراض میں تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے بروقت علاج کے لیے ماہرین سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

 

نتیجہ: ڈاکٹر کی سفارشات

ڈینگی اور ملیریا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر، ہر شہری کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے۔ مچھروں سے بچنے کے لیے گھروں کے اندر اور باہر صفائی رکھنا، پانی جمع نہ ہونے دینا، اور مچھر دانی یا اسپرے کا استعمال کرنا ضروری ہے۔


ڈاکٹرز کے مطابق گھریلو علاج وقتی طور پر مددگار ہو سکتے ہیں، لیکن کسی بھی سنگین علامت ظاہر ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ زندگی بچانے کے لیے بروقت اور درست علاج ہی بہترین حکمت عملی ہے۔

Reactions

Post a Comment

0 Comments

Ads

NASA Zero Gravity

خلائی سفر کے دوران خلابازوں کے جسموں کی حفاظت کے لیے ناسا کی طرف سے تیار کردہ صفر کشش ثقل کی نیند کی پوزیشن، پٹھوں اور جوڑوں کا درد، خرراٹی، تیزابی ریفلکس، خراب گردش، اور ویریکوز رگوں سمیت متعدد صحت کے مسائل میں مدد کر سکتی ہے۔ اس پوزیشن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پیٹھ کے بل لیٹ جائیں اور اپنے سر اور پاؤں دونوں کو دل کی سطح سے قدرے اوپر اٹھائیں۔ اس پوزیشن کے فوائد میں نیند کے معیار میں بہتری، خراٹے اور نیند کی کمی، ایسڈ ریفلوکس اور سینے کی جلن سے نجات، بہتر ہاضمہ اور گردش، اور ویریکوز رگوں اور ورم کی علامات میں کمی شامل ہیں۔ یہ پوزیشن ان لوگوں کے لیے تجویز کی جاتی ہے جو بے خوابی یا نیند میں خلل کا شکار ہیں، کیونکہ یہ صحت مند نیند کو آرام دینے اور فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے۔

Philosophy of Universe

یہ سوال کہ آیا ہماری کائنات ایک سمو لیشن ہے یا دھوکہ ، صدیوں سے فلسفیوں، سائنسدانوں اور ماہرینِ الہٰیات کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔ اگرچہ کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، لیکن اس خیال کے حق میں اور اس کے خلاف کئی دلائل موجود ہیں کہ ہماری حقیقت وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے۔سمو لیشن کے نظریہ کے اہم دلائل میں سے ایک ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی ہے، خاص طور پر مجازی حقیقت کے میدان میں۔ خیال یہ ہے کہ اگر ہم حقیقت کے انتہائی عمیق نقالی تخلیق کر سکتے ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ ہماری اپنی حقیقت بھی ایک زیادہ ترقی یافتہ تہذیب یا ہستی کی تخلیق کردہ نقل ہو۔تاہم، اس نظریہ کے خلاف کئی جوابی دلائل موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، فزکس کے قوانین اور ہماری کائنات کی پیچیدہ نوعیت یہ بتاتی ہے کہ یہ کوئی سادہ سی شکل نہیں ہے۔ مزید برآں، اگر ہماری کائنات نقلی ہوتی، تو اس کی تخلیق کے لیے کوئی مقصد ہونا چاہیے تھا، جس کا فی الحال ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔اسی طرح یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک وہم یا دھوکہ ہے بھی فلسفیانہ اور روحانی بحث کا موضوع ہے۔ بدھ مت میں مایا کا تصور بتاتا ہے کہ ہماری حقیقت ذہن کی طرف سے پیدا کردہ ایک وہم ہے، لیکن یہ خیال سائنسی ثبوت کے بجائے موضوعی تجربے پر مبنی ہے۔آخر میں، جب کہ یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک سمولیشن ہے ی یا پھر دھوکہ ، فی الحال کسی بھی نظریے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ ہماری حقیقت کی نوعیت ایک معمہ بنی ہوئی ہے، اور یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی دنیا کے بارے میں اپنے تجربات اور تفہیم کو تلاش کرے اور اس کی بہتر طور پر تشریح کرے۔ ۔

 


How to control Old age

بڑھاپا ایک قدرتی عمل ہے جو ابتدائی جوانی میں شروع ہوتا ہے اور درمیانی عمر کے آس پاس تیزی سے بڑھتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ جینیات، طرز زندگی اور ماحول جیسے عوامل عمر بڑھنے کی شرح کو متاثر کرتے ہیں۔ درمیانی عمر، عام طور پر 45 اور 65 کے درمیان، ہارمونل تبدیلیوں، پٹھوں اور ہڈیوں کے ساتھ گوست کی کمی، اور آکسیڈیٹیو تناؤ میں اضافے کی وجہ سے ہوتی ہے۔باقاعدہ ورزش، خاص طور پر مزاحمتی تربیت جیسے ویٹ لفٹنگ، پٹھوں اور ہڈیوں کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے، زوال کو روکنے، اور گرنے اور فریکچر کے خطرے کو کم کرکے عمر بڑھنے کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ورزش کرنے سے ٹیسٹوسٹیرون اور گروتھ ہارمون جیسے ہارمونز بھی بڑھتے ہیں، جو عمر کے ساتھ کم ہوتے ہیں اور پٹھوں کے نقصان میں معاون ہوتے ہیں۔ ایروبک ورزش، یوگا، اور صحت مند غذا بھی قلبی صحت کو بہتر بنا کر، تناؤ کو کم کر کے، اور مجموعی صحت کو فروغ دے کر بڑھاپے کو کم کر سکتی ہے۔ مناسب نیند اور ماحولیاتی زہریلے مادوں کو کم سے کم کرنا صحت مند عمر بڑھنے میں مزید مدد کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ، اگرچہ عمر بڑھنے کی رفتار درمیانی عمر کے آس پاس ہوتی ہے، لیکن مختلف حکمت عملی جیسے کہ ورزش، صحت مند غذا، نیند، اور زہریلے مواد میں کمی عمر بڑھنے کے عمل کو سست کر سکتی ہے اور زندگی بھر بہترین صحت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔