دنیا کا پہلا بچہ جو روبوٹس کے ذریعے دور
سے کیے گئے خودکار آئی وی ایف طریقے سے پیدا ہوا — سائنس میں انقلابی پیش رفت
تحریر: Live Science کی رپورٹ کی روشنی میں اردو ورژن از
جانب ایک ماہر سائنسی تجزیہ نگار
دنیا
کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جس کا حمل مکمل طور پر دور سے
کنٹرول کیے جانے والے روبوٹس کے ذریعے "خودکار انٹرا سائٹوپلازمک اسپرم
انجیکشن" (ICSI) طریقہ
کار سے قائم ہوا۔ یہ جدید ٹیکنالوجی اب ایک حقیقت بن چکی ہے، جو تولیدی طب میں ایک
انقلابی قدم ہے۔
یہ
سائنسی معجزہ میکسیکو کے شہر گواڈالاہارا میں وقوع پذیر ہوا، جہاں پر روبوٹکس کے
ذریعے ایک مکمل آئی وی ایف عمل کو انجینئرز اور ماہرینِ حیاتیات نے نیویارک میں
بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کے تحت مکمل کیا۔ اس پیچیدہ مگر کامیاب تجربے نے نہ صرف جدید
تولیدی ٹیکنالوجی کی راہیں کھولی ہیں بلکہ لاکھوں بےاولاد جوڑوں کے لیے امید کی
نئی کرن بھی پیدا کی ہے۔
آئی وی
ایف اور ICSI کا پس
منظر
ان
وٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) یا "بیرونی
حمل" کا طریقہ کار 1978 میں پہلا کامیاب تجربہ ہونے کے بعد سے مسلسل ترقی کی
راہ پر گامزن ہے۔ IVF ایک ایسا طریقہ ہے
جس میں عورت کے بیضہ (egg) اور
مرد کے نطفہ (sperm) کو لیبارٹری میں
ملا کر حمل قائم کیا جاتا ہے۔
انٹرا
سائٹوپلازمک اسپرم انجیکشن (ICSI) اس کا
ایک مخصوص انداز ہے، جس میں ایک ہی نطفہ کو براہ راست بیضہ میں داخل کیا جاتا ہے۔
یہ طریقہ خاص طور پر ان مردوں کے لیے مؤثر ہوتا ہے جن میں نطفے کی حرکت یا تعداد
کا مسئلہ ہو۔
نئی
ایجاد: خودکار ICSI اور
روبوٹکس کا کردار
حال ہی
میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق، امریکی شہر نیویارک کی ایک بایو ٹیک
کمپنی "Conceivable Life
Sciences" نے ایک ایسا جدید نظام تیار کیا ہے جو آئی سی ایس آئی
کے پورے عمل کو خودکار طریقے سے انجام دیتا ہے۔ اس نظام میں مصنوعی ذہانت (AI)، روبوٹکس، اور لیبارٹری انجینئرنگ کو مربوط
کر کے حمل کے قیام کا عمل مکمل کیا گیا۔
یہ
جدید خودکار نظام 23 مختلف مراحل پر مشتمل ہے جن میں نطفے کا انتخاب، اسے غیر
متحرک کرنا، بیضے میں انجیکشن، اور بہترین ایمبریو (embryo) کا
چناؤ شامل ہیں۔ تاہم، اس نظام میں نطفے اور بیضے کے حصول اور ایمبریو کی بچہ دانی
میں منتقلی کے مراحل اب بھی انسان سرانجام دیتے ہیں۔
تاریخ
ساز حمل کا سفر
گواڈالاہارا،
میکسیکو کی ایک 40 سالہ خاتون کے ذریعے یہ تجربہ انجام پایا۔ جدید خودکار نظام کے
ذریعے حاصل کردہ ایمبریو کو خاتون کے رحم میں منتقل کیا گیا، اور بالآخر ایک صحت
مند بچے کی ولادت عمل میں آئی۔ اس تجربے میں کل 8 بیضوں کا استعمال کیا گیا جن
میں سے 5 خودکار طریقے اور 3 روایتی طریقے سے بارآور کیے گئے۔ خودکار طریقے سے
حاصل کردہ 5 بیضوں میں سے 4 کامیاب ایمبریو میں تبدیل ہوئے جبکہ روایتی طریقے سے
تمام 3 کامیاب ثابت ہوئے۔
مصنوعی
ذہانت: انسانی فیصلوں کی جگہ لینے کو تیار
Conceivable Life Sciences کے چیف میڈیکل
آفیسر، ڈاکٹر الیخاندرو شاویز-باڈیولا کے مطابق، "ہم نے آئی سی ایس آئی کو
پہلی بار مکمل طور پر معیاری بنایا ہے۔" ان کے مطابق، روایتی طور پر ہر ماہر
کا انجیکشن کا طریقہ الگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انڈے کے ضیاع کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن
خودکار نظام اس خطرے کو کم کرتا ہے۔
اس
نظام میں AI الگورتھم نطفے کی
ظاہری شکل کی بنیاد پر بہترین نطفے کا انتخاب کرتا ہے، جبکہ دوسرا الگورتھم
ایمبریو کے کروموسومز کا تجزیہ کر کے اس کے رحم میں پیوست ہونے کی صلاحیت کا
اندازہ لگاتا ہے۔
خودکار
نظام کا طریقۂ کار
یہ
نظام ایک لیزر کا استعمال کر کے نطفے کی دم کو عین درمیان سے غیر متحرک کرتا ہے،
اور پھر ایک موٹر کے ذریعے بیضے کی جھلی کو صرف ایک ہی حرکت میں چیر کر نطفہ داخل
کیا جاتا ہے۔ پورے عمل کو ایک نگران ماہر انسان کی جانب سے ایک بٹن دبا کر مرحلہ
وار آگے بڑھایا جاتا ہے۔
یاد
رہے کہ نطفے کا بیضے میں داخل ہونا خود حمل کا ضامن نہیں ہوتا، لیکن یہ بنیادی اور
اہم مرحلہ ضرور ہوتا ہے۔ حمل کا قائم ہونا ایمبریو کے رحم میں پیوست ہونے پر منحصر
ہوتا ہے۔
وقت
اور معیار کا موازنہ
اگرچہ
اس جدید خودکار نظام میں ہر بیضہ کی فرٹیلائزیشن میں اوسطاً 10 منٹ لگے، جو کہ
روایتی طریقے سے کئی گنا زیادہ ہے، لیکن یہ معیار اور حفاظت کے لحاظ سے زیادہ قابل
اعتماد ثابت ہو سکتا ہے۔ روایتی طریقے میں ایک انڈے کی فرٹیلائزیشن میں صرف ڈیڑھ
منٹ لگتے ہیں، لیکن اس میں انسانی غلطی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
مستقبل
کی راہیں: مکمل خودکار تولیدی نظام
ڈاکٹر
شاویز-باڈیولا کے مطابق، ان کی ٹیم کا اگلا ہدف ICSI کا
"اختتام سے آغاز تک" مکمل خودکار بنانا ہے۔ اگرچہ انسان اس عمل کا لازمی
حصہ رہے گا — جیسا کہ نگرانی، نطفے اور انڈے کی تیاری، اور رحم میں ایمبریو کی
منتقلی — لیکن باقی مراحل مکمل طور پر روبوٹکس اور AI کے
ذریعے ممکن ہو سکتے ہیں۔
یہ
اختراع نہ صرف تولیدی عمل کی کامیابی کو بڑھائے گی بلکہ اخراجات کو کم کر کے اسے
متوسط اور کم آمدنی والے افراد کے لیے بھی قابلِ رسائی بنا دے گی۔
طبی
ماہرین کا ردعمل
RMA نیویارک کے ماہر تولیدی اینڈوکرائنولوجسٹ
ڈاکٹر ارکان بویوک نے اس ٹیکنالوجی کو سراہتے ہوئے کہا، "یہ ابتدائی قدم ہے۔
کئی مزید مطالعات درکار ہیں تاکہ اس نظام کی حفاظت، مؤثریت اور بارآوری کی صلاحیت
کو یقینی بنایا جا سکے۔"
اسی
طرح، نارتھ ویسٹرن میڈیسن کے ڈاکٹر ایمیلی جنگ ہائم نے کہا، "اگر یہ
ٹیکنالوجی صحیح طریقے سے عمل میں لائی جائے تو IVF کی
رسائی اور وسعت میں غیرمعمولی اضافہ ممکن ہے۔"
اخلاقی
اور معاشرتی پہلو
یہ
ٹیکنالوجی نہ صرف طبی دنیا میں ایک انقلاب ہے بلکہ اس کے سماجی و اخلاقی پہلو بھی
غور طلب ہیں۔ ایک طرف یہ ٹیکنالوجی لاکھوں بےاولاد جوڑوں کے لیے امید کی کرن ہے،
تو دوسری طرف خودکار طریقے سے انسانی جان کی تخلیق کے حوالے سے کچھ ماہرین خدشات
کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
اختتامیہ:
تاریخ کا نیا موڑ
یہ
واقعہ نہ صرف سائنس میں ایک انقلابی قدم ہے بلکہ یہ انسان کی فطرت، مشاہدہ اور
تجسس کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ دنیا اب ایک ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں
زندگی کے قیام کا عمل روبوٹ، مصنوعی ذہانت اور انسان کے باہمی اشتراک سے مکمل ہو
رہا ہے۔
"ہم تاریخ رقم کر رہے ہیں،" ڈاکٹر
شاویز-باڈیولا کے ان الفاظ میں اس کامیابی کی گہرائی واضح ہے۔
ڈسکلیمر
یہ
مضمون صرف عمومی معلومات اور تعلیمی مقاصد کے لیے پیش کیا گیا ہے۔urduworld.info سائنس،
طب یا تولیدی صحت سے متعلق کسی بھی طبی مشورے، تشخیص یا علاج کی براہِ راست سفارش
نہیں کرتا۔ اس مضمون میں شامل معلومات معتبر سائنسی ذرائع اور بین الاقوامی رپورٹس
جیسے کہ Live Science کی
بنیاد پر اردو ترجمے اور تجزیے کی صورت میں پیش کی گئی ہیں۔
قارئین
سے گزارش ہے کہ وہ تولیدی صحت، بانجھ پن یا IVF سے
متعلق کسی بھی ذاتی مسئلے یا فیصلے کے لیے مستند طبی ماہر یا رجسٹرڈ ڈاکٹر سے رجوع
کریں۔ جدید سائنسی تجربات اور خودکار تولیدی ٹیکنالوجیز کے حوالے سے آراء اور
نتائج وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔
urduworld.infoاس مضمون میں شامل
کسی بھی طبی، اخلاقی یا قانونی نتیجے کی ضمانت یا ذمہ داری نہیں لیتا۔ اس ویب سائٹ
پر موجود معلومات کا استعمال قارئین کی اپنی صوابدید اور ذمہ داری پر منحصر ہے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments