www.urduworld.info |
پوزیٹران، پہلا اینٹی میٹر۔ صرف ایک ذرہ یا قدرت کی طرف سے جوابی کاروائی
تعارف:
ہم آج کے اس آرٹیکل
میں خاص کر کائنات کے انتہائی حساس قوانین
کے متحرکات کو کھوجنے کی کوشش کرینگے اور
جانیں گے کہ جب ہم کسی ایٹم کو متعارف کررہے
ہوتے ہیں تو دراصل ہم اس پوری کائنات کی فزیکل ساخت کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔اور
انسان چاھ کر پورے ذور ِ بازو سے لگ کر بھی کائنات کی ان حساس قوانین کو نہیں بدل
سکتا جو ہماری ذندگیوں کی موجودگی کا راز ہے۔ میں پچھلے کئی عرصے سےیہی
کہتا آرہا ہوں کہ اصل میں کائنات کی ساری معلومات ہمیں بیالوجی یا حیاتیات
تک رسائی دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ سائینس کے سارے علوم بیالوجی میں کہیں ضم ہوجاتے
ہیں۔مگر موجودہ انسانی ٹیکنالوجی کو قدرت یا قوانینِ فطرت کسی طور بھی ہضم نہیں
ہوتے۔سائینس اپنے جاننے والوں کو مادے کے استحکام ِ راز تک رسائی دیتی ہے اور
ٹیکنالوجی کو بتاتی ہے کہ ان رازوں کو استعمال کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی خدمت
اور معراج کی شرفیت کو چھوا جاسکتا ہے۔مگر کیا کہنے اس انسان کے اپنے خود غرضانہ
عمل اور نفسِ حوس کی عنصر کو پروان چڑھا کر معراجِ انسانیت کی دھجیوں کو پارہ پارہ
کردیتا ہے۔آج کا مضمون بھی کچھ اسی طرح کی دریافت سے جڑا ہوا ہے۔کہ قدرت کے بتائے
رازوں کو غلط استعمال کرتے ہوئے انسانیت کے خلاف ہی استعمال کیا گیا۔اور اس سے جو
نئی چیز دریافت ہوئی وہ اس سے پہلے کبھی نہیں سوچی گئی تھی۔مضمون کو طول دینے سے
پہلے نفسِ مضمون کے بارے میں جان لینا
ذیادہ بہتر ہے تاکہ آگے مشکل آئیڈیاز کو
سہل پیراہے میں سمجھ لیا جاوے۔ نیز اس آرٹیکل میں کلاسیکل اور فرسودہ فزکس کی
بجائے جدید طبیعاتی ٹرم کو متعارف کرایا جائیگا تاکہ سائینس کی ٹیکنالوجی سے مطابقت صحیح
انداز میں ہوسکے۔
مادہ کسے کہتے ہیں
جدیدسائنس کے بانی
"اسٹیفن ہاکنگ" کے مطابق، "مادہ دراصل تونائی کی اسپیشلائز شکل ہے جو اپنے اندر کمیت
یا جسم کے ساتھ ساتھ پھیلاؤ کی خوبی بھی رکھتا ہے"۔اور ساری کائنات مادہ سے
ہی مل کر بنی ہے۔مادہ وہی ہے جو ہمیں نظر آرہا ہے۔یہ کل ملاکر اپنی پانچ شکلوں کے
ساتھ اس کائنات میں اپنا وجود رکھتے ہیں اور کائناتی ڈھانچہ استوار کرتے ہیں۔
1۔ ٹھوس
2۔ مائع
3۔ گیس
4۔ پلازما
5۔ سگما اسٹار یا
بلیک ہول
اس میں مادے کی پانچویں قسم پر سائنسدانوں کے بحث و مباحثہ ہیں۔فزکسٹ
اسے مادہ کی نئی شکل کہتے ہیں۔جبکہ کاسمالوجسٹ
اسے آسمانوں کے درمیان ایک گیٹ وے تصور کرتے ہیں۔اس کی بحث کافی طویل ہے
اگلے کسی موضوع میں اس کو کھولنے کی کوشش کی جائیگی۔فی الحال ہم ان چیزوں کو جانیں
گے جو اس موضوع کو سمجھنے میں ہماری
لئے معاون ہیں۔
ایٹم کی ساخت
کائنات میں پھیلا ہوا بے پناہ مادہ دراصل کوانٹم لیول پر اپنی ایک مسلمہ کائنات رکھتا ہے۔مسلمہ کائنات کی اصطلاح میں نے اس لئے استعمال کی ہے کہ ایٹم کے اندر کی کائنات اتنی پر اسرار ہے کہ اس پر باقائدہ طبیعات کی ایک نئی برانچ کو متعارف کرائی گئی جسے ذراتی طبیعات کہتے ہیں۔ایٹم کو اگر بیان کیا جائے کہ تو کہا جائیگا کہ "وہ چھوٹے سے چھوٹے ذرہ جو مادہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہویا مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم کہلاتا ہے۔ ایٹم بذاتِ خودتین بڑے ذرات کا مجموعہ ہے ۔
1- الیکٹران منفی چارج کے ساتھ
2۔ پروٹون مثبت چارج
کے ساتھ جبکہ
3۔ نیوٹرن بغیر کسی چارج کے ہے
ایٹم کے وسط میں اس
کا مرکز ہوتا ہے جسے نیوکلس یا مرکزکہتے ہیں۔ ان تین ذرات کے علاوہ 15 ذرات اور ہوتے ہیں
جسے اگلے مضمون میں کا فی وضاحت سے کھلولنے کی کوشش کی جائیگی۔تمام چھوٹے ذرات اس کے
مرکز میں میں ہی پائے جاتے ہیں ماسوائے الیکٹران کے جو نیوکلس کے گرد انتہائی تیزی
کے ساتھ چکر لگاتا ہے۔ایک ایٹم میں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ایٹم کا 99
فیصد حصہ خالی رہتا ہے۔
پوزیٹرون کی دریافت
کیلٹیک کے ماہر طبیعیات
کارل اینڈرسن نے پوزیٹرون کو دریافت کرنے میں پیش رفت کی، اور اس طرح یہ اس کرۃ ارض کا پہلا میٹر کا ذرہ تھا جسے اینٹی میٹر کا نام دیا گیا جس
کی شناخت 1932 میں کی گئی۔ اینڈرسن اینٹی مادّہ
کی تلاش کے لیے نکلا نہیں تھا۔ اس نے ایک کلاؤڈ چیمبر بنایا تھا تاکہ کائناتی شعاعوں،
اعلی توانائی والے ذرات جو خلا سے اسپیس میں برستے ہیں، کی ساخت کا تعین کرسکے۔ اس آلے میں ایک
مقناطیس شامل تھا، جس نے اینڈرسن کو اس بات کا تعین کرنےمیں مدددی کہ آیا وہاں سے گزرنے
والے ذرات مثبت چارج کے ہیں یا یا منفی چارج
کے، اور ذرات کو سست کرنے کے لیے ایک لیڈ پلیٹ کا استعمال کیا گیا۔ اینڈرسن نے کائناتی
شعاعوں کے ذریعے لی گئی پٹریوں کی سیکڑوں تصویریں لیں، لیکن وہ اس پوسٹ کی طرح کی پٹریوں
سے پریشان تھا کیونکہ ذراتی رفتار کے منحنی خطوط سے پتہ چلتا تھا کہ ذرہ مثبت طور پر
چارج کیا گیا ہےجوپروٹون سے کہیں گنا چھوٹا
ہے۔ فزیکل ریویو جریدے کے ایک ایڈیٹر نے پوزیٹرون کا نام تجویز کیا، کیونکہ یہ ذرہ
ایک مثبت چارج شدہ الیکٹران سے مشابہ تھا۔ بعد میں اینڈرسن کو احساس ہوا کہ مخالف چارج
کے علاوہ پوزیٹرون الیکٹران سے مماثلت رکھتا ہے — پال ڈیرک نے 1931 میں ایسے اینٹی
پارٹیکل کے وجود کی پیش گوئی کی تھی۔ اینڈرسن کو اس کی دریافت پر 1936 میں فزکس کا
نوبل انعام دیا گیا۔
پوذیٹرون کی تعریف
بنیادی طور پر
پوذیٹرون ، الیکڑان کا اینٹی میٹر ہے۔ اینٹی میٹر کا مطلب اپنے اصل کی ضد۔اس کا وزن اور اس کی مالیکیولر ساخت میٹر جیسا ہی ہوتا ہے فرق صرف چارج کا
ہوتا ہے جو اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔
اسی طرح ہر مادہ کا
ایک اینٹی میٹر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈرجن کا اینٹی میٹر اینٹی ہائیڈروجن
ہے ، اس کے مرکز میں مثبت چارج رکھنے والا پروٹون ہوتا ہے جبکہ اینٹی میٹر کے
مرکزمیں منفی چارج رکھنے والا پروٹون ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہائیڈروجن میں منفی چارج
رکھنے والا الیکٹران ہوتا ہے اس کے برعکس اینٹی ہائیڈروجن میں مثبت چارج رکھنے
والا الیکٹران ہوتا ہے۔
پوذیٹرون ایکسس
ہمار ی کاسمک کائنات میں ہائی انرجی پارٹیکلز بہت ہی کم ہیں مگر یہ بات پوزیٹرون کیلئے صحیح نہیں ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کاسمک کائنات میں قدرت کی طرف سے ہائی انرجی پروٹون بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔اور ان پروٹون کی انرجی 10 سے 300 گیگا الیکٹرو والٹ کی رینج میں بتائی گئی ہے۔جو بہت ذیادہ ہے۔جو ہماری کائنات کی آرکائیو ڈرائیو میں 10 سے 300 گیگا الیکٹرووالٹ کی ہائی انرجی پہلے سے اسٹور ہے ۔ قدرت کے اسی مظہر کو پوذیٹرون ایکسس کہا جاتا ہے۔
پوزیٹرون کی افادیت
اب سائنسدان یہ تو
جانتے ہیں کہ پوزیٹرون اس طرح کا کائناتی
مظہر اپنا وجود رکھتا ہے مگر کیوں رکھتا ہے یہ ابھی تک ایک راز ہی تھا مگر
سائینسدانوں نے حال ہی میں اس راز سے پردہ
اٹھایا ہے ۔چلئے اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
"جونو" یہ ناسا کا ایک ائیر کرافٹ ہےجسے اب تک کا سب سے تیز ترین (انسانوں کا بنایا ہوا) آبجیکٹ مانا گیا ہے۔اس کی ہائی اسپیڈ تین لاکھ پینسٹھ ہزار(365،000) کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر پوذیٹرون کا ری ایکٹر بنایا جائے مطلب پوذیٹرون کو ایک انرجی کی طرح استعمال کیا جائے تو آنے والے وقتوں میں راکٹ ایک سو پندرہ ملین کلو میٹر ( 1،150،000،00 ) فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر پائینگے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسپیس میں اس اسپیڈ کے ساتھ سائنسدانو ں کے پاس کتنے آپشن کھل سکتے ہیں۔
اس کی بنیاد، ہونے والی ریسرچ اور دریافت کس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی
ہے۔بیالوجی میں اس کا استعمال ٹیومرکی بیماری کو کھوجنے میں ہوتا ہے ۔کیونکہ
پوذیٹرون ہماری ذمین پر کم پایا جاتا ہے
اور چونکہ اس کو وافر مقدار میں پیدا نہیں کیا جاسکتا اس لئے اس کا استعمال ہی
محدود رکھا گیا ہے۔مزید یہ کہ پوذیٹرون ایک اینٹی میٹر ہے یہ جب بھی اپنے اینٹی
میٹر کے کانٹیکٹ میں آتا ہے تو یہ اس میں ضم ہوجاتا ہے جسے سائینسی اصطلاح میں
"اینی لیٹ" کہتے ہیں۔
رومن ریسرچ انسٹی
ٹیوٹ کا نیا پروپوزل
اب دیکھتے ہیں کہ رومن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی اسٹڈی میں کیا پایا ہے؟ رومن ریسرچ کے سائینسدانوں نے کہا ہے کہ ملکی گلیکسی میں بہت ساری بڑے بڑے مالیکیولر ہائیڈروجن کے کلاؤڈ موجود ہیں۔اور جب بھی کو ئی اسٹار اپنی ذندگی کے آخری مرحلوں میں ہوتاہے۔اورتباہ ہوتا ہے جسے سپر نووا ایکسپلوژن کہتے ہیں۔تو اس دوران بہٹ بڑی مقدار میں کاسمک ریز کا اخراج ہوتا ہے۔جو ان ہائیڈروجن کلاؤڈ سے ٹکراتی ہیں اور ان سے ری ایکٹ کرتی ہیں اور پھر یہ کاسمک ریز اپنی خصوصیات کو بدل کرقدرتی طور پر ایسی کاسمک ریز میں بدل جاتی ہیں جو ہماری کائنات کو متوازی رکھتی ہیں۔اور اسی دوران ہائی انرجی پوزیٹرون پیدا ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ
ہے کہ ان ریسرچرز نے یہ سب کیے پتا لگایا؟ کیا اپروچ استعمال کی ہوگی؟
ریسرچرز نے بنیادی طور پر ملکی وے گلیکسی میں کاسمک رے پروپوذیشن کو اسٹڈی کرنے کیلئے ایک سمولیٹڈ (تمثیلی) سیٹ اپ بنایا جس کیلئے انھونےاس پر ڈریگن کوڈ کا استعمال کیا ہے۔
(ڈریگن کوڈ کیا ہوتا ہے اس کی وضا حت کیلئے نیچے ویڈیو کا لنک ڈال دیا گیا ہے)۔
اینٹی میٹر اور
سائنسدانوں کی حدود
ہماری اس رازوں سے بھری کائنات
میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جسے ہم جڑ سے نہیں بدل سکتے بلکہ ٹرانسفورم کرسکتے ہیں
۔ جیسے
Conservation of momentum
Conservation of matter
Conservation of energy
یہ ایسے قوانین ہیں جسے قدرت نے ہمیں صرف استعمال کیلئے دیئے ہیں اس کو ہم بدل نہیں سکتے۔ اسی طرح ایٹم میں چھپے چارجز کو ہم چین ری ایکشن ک ذریعے ختم نہیں کرسکتے۔کیونکہ انھی چارجز نے کائنات میں توازن کو قائم کیا ہوا ہے۔جب ہم چارجز کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم دوسرے لفظوں میں کائنات کے توازن کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔کائنات میں جتنے بھی چارجز ہیں ہم ان پر لگے نمبرز کو کم یا ذیادہ نہیں کرسکتے۔مطلب اس دنیا میں جتنے مثبت چارج ہیں اتنے ہی منفی چارج بھی ہیں۔اس طرح اس کائنات کا نیٹ چارج زیرو رہتا ہے۔یہ قدرت کا ایک قانون ہے جسے "کنزرویزن آف لاء" کہا جاتا ہے۔اسے قدرت میں پنہا خود کار نظام متوازن رکھتے ہیں۔یعنی انسان کائناتی مخصوص چارجز کو نا بنا سکتا ہے اور نا ہی ختم کرسکتا ہے۔بلکہ ایک دوسرے جسم میں صرف منتقل کرسکتا ہے۔ ٹیکنالوجی بعد میں اور تجربات سے گزری تو سائنسدانون نے ایٹم بنالیا تو ا س پر سوال اٹھا یا گیا کہ ایٹم بم میں اتنی پوٹینشنل انرجی کہاں سے آئی؟تو اس پر آئنسٹائن نے بتایا کہ مادہ کو توانائی میں بدلہ جاسکتا ہے اور اپنی مشہورِ ذمانہ مساوات کو پیش کیا۔
اور کہا کہ جب ایٹم کو پھاڑا جاتا ہے تو اس میں سب
سے پہلے الیکٹران وافر مقدار میں نکلتا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنی
وافر مقدار میں الیکٹران فضا میں تباہ ہوجائینگے تو اس کے ساتھ اس کے منفی چارج بھی تو ختم ہوجائینگے اور منطقی طور پر مثبت
چارج اس کائنات میں منفی چارج سے بڑھ جائینگے جس سے کائناتی توازن بڑھنے کا 100
فیصد احتمال پیدا ہوجائیگا۔۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں کائناتی
قوانین میں کوئی ردو بدل پیش نہیں آتا۔کائنات جوں کی توں اپنی آب و تاب کے ساتھ
ذندہ رہتی ہے۔
اس پر سائنسدانوں نے کھوج لگایا کہ منفی چارج ختم ہوگئے اور کائنات توازن میں رہی تو اس کا مطلب کو ئی تیسری چیز ہے جس نے الیکٹران کے ساتھ اپنا کامبی نیشن بنا یا ہوا ہے۔اور اس وقت انھونے ایک "ہائپو تھیٹیکل پارٹیکل" یعنی ایک مثالی ذرہ قیاس کیا جس کا نام بعد میں پوزیٹرون رکھا گیا۔جس کی تمام پراپرٹیز الیکٹرون سے ملتی ہے مگراس کی ضد میں۔یعنی جس وقت بلاسٹ ہوتا ہے اس وقت دونوں ذرات ٹکرا کر خود کو بیک وقت ختم کرلیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں وافر مقدار میں انرجی لہروں کی صورت میں توانائی ریلیز یوتی ہے جیسے ہیٹ اورلائٹ کی لہریں۔یہ ہے مادہ کا انرجی میں کنورژن۔جسے البرٹ آئنسٹائن نے بعد میں واضع کیا۔
اس مضمون میں کئی سارے سوالات جنم لیتے ہیں جس پر تفصیل سے بات ہوسکتی ہے مگر آخری اقتباس میں جو بات میں نے رکھی ہےاگر آپ کے پاس اس کا کوئی ٹھوس جواب ہو تو ضرور کمنٹ کیجئیے۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments