كُلُّ مَن عَلَيهَا فَان
جو(مخلوق )ذمین پر ہے سب کو فنا ہے
(سورۃ الرحمٰن: آیت نمبر 26)
مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ کسی بھی شہر میں دھماکے کے بعد شہر کا کلْ نظام درھم برھم ہوجاتا ہے اور چیزیں یاتو ختم ہوجاتی ہیں یا ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔مگر روزِ آفرینش کی ابتداء ہمیں کچھ اور ہی اشارے دکھاتی ہے۔ وہ یہ کہتی ہے کہ جب کائنات کا وجود ہوا تو اس وقت مکمل کائنات ایک مرکب کی طرح بند تھی چنانچہ روزِ آفرینش ایک انتہائی ذور دار دھماکہ ہوا مگر اس دھماکے سے تخریب کے بجاۓ تعمیرکا عمل وجود میں آیا۔اور کائنات بننے کیلئے جس طرح جس جگہ جس پوذیشن جس ذاوئیے اور جس متعین مقدارِ کششِ ثکل پر چیز وں کا ہونا ضروری تھا وہ وہاں جاکر نسب ہوگئ ۔ اسی دن سے کائنات میں اونچ اور نیچ، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں جیسی جہتیں وجود میں آئیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قدرت کے ان اشاروں کو سمجھیں جو ہمارے ذاوئیے سے 360 ڈگری الٹ ہے گویا کہ پرانے ذمانے کی آڈیو کیسٹ کی سایئڈ اے اور سائیڈ بی ہو کہ جب سائیڈ اے کو فارورڈ کریں تو اسکا یہ مطلب لیا جاۓ کہ اصل میں یہ سائیڈبی کی ریورس ہے۔اور اسنے ہمیں سوچ دی جیسے کمپیوٹر کا ایک شاہکارہارڈوئیر دیا ہو اور اسکے سافٹ وئیر میں کائناتی نظام کی ایسی پروگرامنگ کی جو قوانینِ قدرت سے ٹکرا سکتی ہو اور بھرپور
طور پر ایک
خودمختار عقل دی جو نا صرف اپنی مرضی سے وحدہٗ لاشریک کا مشاہدہ کرسکتی ہوبلکہ یہ
تخمینہ بھی لگا سکتی ہوکہ آنے والے بچے کی پیدائش نر ہوگی یا مادہ۔اور موجودہ
جینیٹک انجینئیرنگ اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہوکر قوانینِ قدرت میں ردّو
بدل کی عجیب و غریب کوششوں میں سرکرداں نظر آتی ہے۔تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب جب ہم نے قدرت کے متعین
ڈھانچے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں قدرت نے انسان کو زمین کے نیچے
کہیں دفن کر ڈالا۔ اس سے کٗل ملا کر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قدرت کسی ایک
فرد کا کنبہ ہے جو ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ قدرت کے سربستہ سورس کوڈز میں کوئی تغیر
کیا جاوے مگر ایک دوسری جانب قدرت ہمیں
یہ بھی سمجھاتی ہے کہ ہر چیز نے فنا ہونا ہےمطلب کائنات کیلئے فرسودگی کا قانون متحرک
ہے جسے "وقت" کی بنیادوں پر
استوار کیا گیا ہےکہ جس طرح سے یہ وجود میں آئی ہے اسی طرح واپس اپنی منزل کی طرف
لوٹ بھی جائیگی۔ آخر
میں اپنی ساری باتوں کو مختصرکرونگاکہ جن و انس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک
اندھیرے بند کمرے میں انتہائی باریک سوئی پڑی ہو اور کوئی اسے ڈھونڈنےکو کہے۔
نتیجہ آپ بھی جانتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرماۓ۔کیونکہ دین کی سمجھ میں
ہی کائنات کے سارے راز پوشیدہ ہیں۔
سورۃ
رحمٰن کی آیت نمبر 26 کا علم الاعداد سے جائزہ
سورہ
رحمان کی یہ چھبیسویں آیت اپنے کمال حسن
کیساتھ قرآن کے ایک ذبردست مقام پر موجود ہے۔سورہ رحمان میں شروع کی بارہ آیت کے بعداللہ پاک نے اپنی شانِ ربوبیت کو متواتر بار دھرایا ہے مگر چھبیسویں آیت کے بعد ستاّئیسویں آیت میں اللہ پاک نے اس آیت کا استعمال نہیں
کیا ۔بلکہ چھبیسویں آیت کی متناسب آیت
یعنی آیت نمبر ترپّن میں اللہ پاک نے اپنی ربوبیت کا استعمال کیا
ہے۔اس کو اس گوشوارے سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے
سورۃ رحمٰن کی کل
آیات 78 ہیں |
|
(ٹوٹل آیات 78 کو دو سے تقسیم کیجئے تو
39 بنتا ہے اس طرح دو کالم بنیں گے) |
|
آیت نمبر (آخرسے) |
آیت نمبر (شروع سے) |
78 |
1 |
77 |
2 |
76 |
3 |
75 |
4 |
74 |
5 |
73 |
6 |
72 |
7 |
71 |
8 |
70 |
9 |
69 |
10 |
68 |
11 |
67 |
12 |
66 |
13 |
65 |
14 |
64 |
15 |
63 |
16 |
62 |
17 |
61 |
18 |
60 |
19 |
59 |
20 |
58 |
21 |
57 |
22 |
56 |
23 |
55 |
24 |
54 |
25 |
53 |
26 |
52 |
27 |
51 |
28 |
50 |
29 |
49 |
30 |
48 |
31 |
47 |
32 |
46 |
33 |
45 |
34 |
44 |
35 |
43 |
36 |
42 |
37 |
41 |
38 |
40 |
39 |
اس طرح قرآن پاک اپنے
کمال حکمت کیساتھ سورۃ رحمٰن کی آیت نمبر 26 کو آیت نمبر 53 سے بیلنس کرتا ہے۔
ملاحظہ کیجئے
جس
طرح 26=6+2=8
مفرد عدد بنتا ہے
اسی طرح 53=3+5=8
مفرد عدد بنتا ہے
جو
علم الاعداد میں تور پھوڑ کرنے، اور صفحہء ہستی سے مٹادینے جیسی خصوصیات سے نمایاں ہے۔
۔ كُلُّ
2۔ مَن
3۔عَلَيهَا
4۔ فَان
جو آٹھ کا عدد کا بالکل آدھا ہے۔ اور اسی آیت
کی متناسب آیت 53 کو اگر اوپر دئیے گئے
گوشوارے میں دیکھیں تووہ اس سورۃ کی مشہور آیت ہے اور
یہ بھی چار اعداد کا مجموعہ ہے جو آٹھ کا عدد بننے میں چھبیسویں آیت کے متناسب
کھڑی ہے۔ اس طرح اس آیت کے الفاظ اور ان سے جڑے اعداد انتہائی کمال حکمت کے ساتھ
اس سورۃ میں موجود ہے۔
خلاصہ
قرآن حکیم میں 6666 آیات ہیں اور اس کی ہر ہر آیت اپنے کمال
درجے پر موجود ہے۔ جو شخص انتہائی دل جمعی اور مشاہدہ کیساتھ قرآن حکیم کو سمجھنے
کی کوشش کریگا تو خود قرآن اس کے سامنے سہل ہوجائیگا اور اس کے سمجھنے والے کیلئے
آسانیاں پیدا کریگا۔مگر اس کو پڑھنے اور مشاہدہ کرنے سے پہلے اچھی طرح وضو کرلیا
جائے اور دو رکعت نفل صلٰوۃ الحاجات پڑھ لی جائے تو بہترین ہوگا۔آئیے آج سے اس بات
کا عزم کریں کہ ہم خدا ئے برتر کی اس کتاب کو نا صرف خود مطالعہ کرینگے بلکہ اس کے
پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے میں بھی اپنے تئیں مکمل سعی کرینگے۔ اللہ سے دعا ہے
کہ دین کیلئے ہماری تمام کوششوں کو قبول
فرمائے۔آمین۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments