![]() |
احوال کائنات |
کائنات کے وجود کے
بعد ربِّ کائنات نے جب انسان کو وجود بخشا
اور ذمین پر اتارنے کا ارادہ کیا تو انسانوں میں سب سے پہلے انسانوں کا راہ
نما اور رہبر یعنی پیغمبرؑ کو انسانوں
کی جماعتوں میں مبعوث فرمایا تاکہ
انسان اپنی ذندگی کو خدا کی منشاء اور اور فطرتِ انسانی سے بہرہ ور ہوکر اپنی
ذندگی کو اچھے انسان کی حیثیت سے
گذارسکے۔کیونکہ خیر و شر کا وجود بھی خدا کی جانب سے ہے مگر خدا نے خیر کو
پسند فرمایا ہے اور ان شرور کی نشاندہی
کردی کہ جس سے انسان ا شرف کے درجے سے گر
جاتا ہے، یہ خدا کا انسان پر سب سے بڑا کرم تھا مگر جن لوگوں نے وقت کے نبیؑ کی
بات نہیں مانی اور اپنی بد مستیوں میں لگ
کر ہٹ دھرمی کا راستہ چنا وہ دونوں جہانوں میں ناکام اور پھر ہلاک
ہوگیا۔
یہاں ایک نکتہ کافی
وضاحت چاہتا ہے کہ قوموں کی ہٹ دھرمی کس سطح کی ہوتی تھی کہ ربّ کائنات ان کا نام
ہی صفحہء ہستی سے مٹاد یتا ہے، یہ بات اچھے سے سمجھ لی جاوے کہ ، قوانینِ قدرت بالکل شفاف ہیں کہ جن اقوام
نے قدرت کا تعین کردہ ڈھانچہ بدلنا چاہا ،
وہ قوم کائناتی چادر پر ثقیل قرار پائی ، اور قدرت کے خود کار متوازی نظام نے انہیں تہہ و بالا و تہس نہس کر ڈالاتاکہ قدرت
اپنے متوازی مرکز پر قائم رہے اور جب تک
قائم رہے جب تک ساری کائناتوں کے سارے سورج اپنا راستہ نہیں بھول جاتے۔ اگر ہم ان
تمام باتوں کو حسابیات کا ایک مستقل قانون کا درجہ دیں تو اگلا سوال کما حقہ یہ
پیدا ہوتا ہے کہ جدید طرز پر جنیاتی ،مصنوعی ذہانت اور نیورا لنک کے بین
الاقوامی کلئیے قوانینِ قدرت سے ٹکراؤ
کیلئے اور انسانی بقاء کو ختم کرنے کیلئے
کہاں کھڑے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام النّاس میں اس بات کا پر زور پرچار کیا جاوے کہ جو قوانینِ قدرت خدا نے متعین کردئیے ہیں وہ بدل نہیں سکتے اور
جو بشری سعی ان قوانین کو بدلنے میں ہیں وہ دراصل اپنی منطق میں کہیں دور جاگرے
ہیں اور اس گمانِ غالب میں ہیں کہ ایک دن قوانینِ قدرت کو معطل کردیا جائے گا۔ کوئی
تو منطق ایسی ہو جو موسیٰؑ اور جادوگروں کے احوال کو سمجھ سکے ۔
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments