جیسا کہ ہم نے پہلےحصے میں ذکر کیا کہ کائنات میں چار بنیادی قوتیں کام کر رہی ہیں: مضبوط قوت،
کمزور قوت، برقی مقناطیسی قوت، اور کشش ثقل۔
ان سب قوتوں میں کشش ثقل سب سے کمزور فورس ہے لیکن اس کی حد لامحدود ہے۔ برقی مقناطیسی قوت
بھی لامحدود رینج رکھتی ہے لیکن یہ کشش ثقل سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔ کمزور اور مضبوط
قوتیں صرف ایک بہت ہی مختصر رینج پر کارآمد ہوتی ہیں اور صرف ذیلی ایٹمی ذرات کی سطح
پر غلبہ رکھتی ہیں۔ اس کے نام کے باوجود، کمزور قوت کشش ثقل سے کہیں زیادہ مضبوط ہے
لیکن درحقیقت یہ باقی تینوں میں سب سے کمزور ہے۔ مضبوط قوت، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،
چاروں بنیادی تعاملات میں سب سے مضبوط ہے۔
تین بنیادی قوتیں قوت بردار ذرات کے تبادلے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، جن کا تعلق ایک وسیع تر گروپ سے ہے جسے "بوسون" کہا جاتا ہے۔ مادے کے ذرات ایک دوسرے کے ساتھ بوسونز کا تبادلہ کرکے توانائی کی مجرد مقدار منتقل کرتے ہیں۔ ہر ایک بنیادی قوت کا اپنا متعلقہ بوسون ہوتا ہے - مضبوط قوت "گلون" کے ذریعہ لے جاتی ہے، برقی مقناطیسی قوت کو "فوٹون" لے جاتا ہے، اور "ڈبلیو اور زیڈ بوسون" کمزور قوت کے ذمہ دار ہیں۔
اگرچہ ابھی تک نہیں پایا گیا ہے کہ "گریویٹون" کو کشش ثقل کا متعلقہ قوت لے
جانے والا ذرہ ہونا چاہیے یا نہیں ۔ معیاری ماڈل میں برقی مقناطیسی، مضبوط اور کمزور
قوتیں اور ان کے تمام بردار ذرات شامل ہیں، اور یہ اچھی طرح سے وضاحت کرتا ہے کہ یہ
قوتیں مادے کے تمام ذرات پر کیسے عمل کرتی ہیں۔
تاہم، ہماری روزمرہ کی زندگی میں سب سے زیادہ
مانوس قوت، کشش ثقل، معیاری ماڈل کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ اس فریم ورک میں کشش ثقل کو
آرام سے فٹ کرنا ایک مشکل چیلنج ثابت ہوا ہے۔ مائیکرو دنیا کو بیان کرنے کے لیے استعمال
ہونے والا کوانٹم نظریہ، اور میکرو دنیا کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہونے والا اضافیت
کا عمومی نظریہ، ایک فریم ورک میں فٹ ہونا مشکل ہے۔
معیاری ماڈل کے تناظر میں کوئی بھی ان دونوں
کو ریاضی کے لحاظ سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ لیکن خوش قسمتی سے پارٹیکل
فزکس میں جب بات ذرات کے چھوٹے پیمانے پر آتی
ہے، تو کشش ثقل کا اثر اتنا کمزور ہوتا ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے۔ صرف اس صورت
میں جب مادہ بہت زیادہ ہو، انسانی جسم کے پیمانے پر یا مثال کے طور پر سیاروں پر، کشش
ثقل کا اثر غالب ہوتا ہے۔ لہذا معیاری ماڈل بنیادی قوتوں میں سے ایک کے ہچکچاہٹ سے
خارج ہونے کے باوجود اب بھی بہتر کام کرتا ہے۔
مگر میرا اس آرٹیکل کو لکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ صرف مادہ
اورفورسز کی بات کروں بلکہ میرا اس آرٹیکل کو اپنا قیمتی
وقت دینے کا مقصد ان رازوں میں سے پردہ اٹھانا ہے جو آج سے چودہ سو سال
پہلے قرآن نے بیان کئیے ہیں۔اور میرے
مطابق جب میں قرآن سے کششِ ثکل کا جائزہ لیتا ہوں تو اس بات تک پہنچتا ہوں کہ کششِ
ثکل کا تعلق صرف نظامِ شمسی سے تعلق رکھنے
والے ہماری گنتی کے مطابق تیسرےنمبر کے
سیارے یعنی ذمین سے نہیں ہے یہ بات
یقینا" چونکا دینے والی تھی اور ایک بار تو میں تحقیق کے دوران اپنی کرسی سے گرتے گرتے بچا۔
اس بات سے قطع نظر کہ آپ کا تعلق کس مکتبہ فکر سے ہے مگر اگر آپ ایک سچے سائینسدان یا مجھے کہنا چاہئیے کہ اگر آپ ایک پڑھے لکھے طبیعات دان ہیں اور میری طرح سچائی کے متلاشی ہیں تو آپ کو ذندگی میں کم سے کم ایک بار ان چیزوں پر ضرور تحقیق کرنا چاہئیے جسے میں آگے بیان کرنے لگا ہوں، اور کیونکہ میں ایک خود منجھا ہوا نیومرولوجسٹ بھی ہوں (بغیر کسی پی-ایچ-ڈی کے)کیونکہ آج 2022 میں علمِ فلکیات کی اچھی خاصی ریسرچ کا نا صرف مطالعہ بلکہ مشاہدہ بھی بدرجہ اتم کرچکا ہوں تو چلئے چلتے ہیں اپنی تحقیق کی جانب جو قرآن کریم سے دریافت کی گئی ہے۔
قوانین برائے ریسرچ
طبیعات میں جس طرح ہر نظریہ کے کچھ خاص قوانین ہوتے ہیں اس طرح اس نظریہ کو پڑھنے سے
پہلے کچھ اصولوں کو مدّ نظر رکھنا ہوگا۔
جس میں پہلا اصول یہ ذہن نشین ہوجا نا
چاہئیے قرآن کریم کائناتوں کے خالق کا کلام ہے
جوکائنات کا رب بھی ہے۔اور وہی ساری کائنات کو ان کے دئیے گئے اصولوں کے مطابق چلا رہاہے۔
دوسرا اصول یہ کہ اس کلام کا کوئی بھی حصہ ، یا
کوئی بھی آیت حتیٰ کہ کوئی بھی لفظ غیر اہم نہیں ہے اور قرآن میں جس جگہ جس منزل پر رکھا گیا ہے وہ نمبر بھی اہم ہے۔
تیسرا اصول یہ کہ قرآن کی ساری ہی آیتیں جو
6666 ہیں اپنے طور پر ڈیجی ٹائز ہیں اور ہم انھیں نظر
انداز نہیں کر سکتے۔
اگر آپ نے یہ تینوں اصول ذہن نشین کر لئے
ہیں تو ہم ذیل کی آیتوں کا تجزیہ کرتے
ہیں۔
(بقیہ حصہ اگلے کالم میں ملاحظہ
کیجیےئگا)
Copyright (c) 2025 URDU WORLD All Right Reserved
0 Comments